سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ

140

انسانی طبیعتوں سے یہ بات ہمارے سامنے آئی ہے کہ دولت و ثروت تسلط کو پسند کرتی ہے۔ یعنی ثروت مند ہمیشہ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو ایسا اثرورسوخ حاصل ہونا اور رہنا چاہیے جو ان کی دولت کی حفاظت کرسکے، اس کی ترقی کا باعث بن سکے اور ان کی شہوتِ غرور و تکبر اور انانیت کی تسکین کا سامان بہم پہنچا سکے۔ لیکن جب ہم جناب عبدالرحمن بن عوفؓ کو، ان کی وسیع و عریض دولت کو دیکھتے ہیں تو ایک عجیب انسان کے روپ اور کردار میں دیکھتے ہیں، ایسا انسان جو اس میدان میں انسانی طبائع پر جبر کرتا نظر آتا ہے اور اسے منفرد بلندی کی طرف لے جاتا دکھائی دیتا ہے۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کی یہ انفرادی صفت اس وقت مبرہن ہو کر سامنے آتی ہے جب دوسرے خلیفہ راشد جناب عمرفاروقؓ کی پاکیزہ روح پرواز کر رہی تھی اور خلیفہ نے رسول اللہؐ کے صحابہ میں سے چھ آدمیوں کو منتخب کیا تھا کہ وہ اپنے میں سے نئے خلیفے کا انتخاب کرلیں تو انگلیاں جناب ابن عوفؓ کی طرف اشارے کر رہی تھیں اور بعض صحابہ نے تو ان اشاروں کو کھول دیا تھا یعنی یہ کہ چھ آدمیوں میں سے خلافت کے سب سے زیادہ حق دار جناب ابن عوفؓ ہیں۔ اس موقع پر عبدالرحمن بن عوفؓنے جواب دیا ’’اللہ کی قسم! اگر چھری لے کر میرے حلق پر رکھ دی جائے اور پھر اس کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے تو یہ چیز مجھے خلافت سے زیادہ پسند ہے۔‘‘
جناب عمرفاروقؓ کے بعد خلیفے کا انتخاب کرنے کے لیے ان 6 آدمیوں کا اجلاس ابھی منعقد نہیں ہو پایا تھا کہ جناب عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنے ان 5 ساتھیوں کو خبر دی کہ میں اس حق سے دستبردار ہوتا ہوں جو چھے آدمیوں میں شامل کرکے عمرؓ نے مجھے دیا ہے۔ لہٰذا آپ 5 افراد کی ذمے داری ہے کہ آپ اپنے میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرنے کا عمل انجام دیں۔ منصب خلافت سے کنارہ کشی نے آپؓ کو ان 5 جلیل القدر افراد کا حاکم بنا دیا اور وہ اس بات پر راضی اور تیار ہوگئے کہ آپ ہی ان میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر دیں۔ اس موقع پر جناب علیؓ نے کہا: ’’میں نے رسول اللہؐ کو آپؓ کی تعریف کرتے ہوئے سنا ہے کہ آپؓ اہل آسمان اور اہل زمین کے امین ہیں‘‘۔
جناب عبدالرحمن بن عوفؓ نے اس موقع پر جناب عثمان بن عفانؓ کو خلیفہ چنا اور باقی لوگوں نے بھی آپ کے انتخاب کی تصدیق کی۔
٭٭
یہ اسلام کے ایک مالدار اور دولت مند شخص کی حقیقت ہے۔ آپ نے دیکھا کہ دولت کی تمام تر رعنائیوں اور بہکاووں کے باوجود اسلام نے آپؓ کو کس بلند مقام پر فائز کردیا تھا اور کس احسن تقویم میں آپ کو ڈھال دیا تھا! یہ 32ہجری ہے جب آپؓ کی روح اس دنیا سے کوچ کر رہی تھی۔ اْم المومنین جناب عائشہ صدیقہؓ چاہتی ہیں کہ آپؓ کو ایسا شرف اور اعزاز بخشیں جو آپؓ کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ جناب عائشہؓ آپؓ کے پاس جاتی ہیں جبکہ آپ بسترِمرگ پر پڑے ہیں۔ سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپ کو رسول اللہؐ اور سیدنا ابوبکر و عمرؓ کے جوار میں میرے حجرے کے اندر دفن کیا جائے۔
مگر یہ مسلمان جس کی اسلام نے بہترین تربیت کی تھی اس بات سے حیا محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو جناب رسول اللہؐ اور ابوبکر و عمرؓ کے برابر لے جائے۔
پھر آپؓ کا جناب عثمان بن مظعونؓ کے ساتھ ایک عہد بھی ہوا تھا کہ ان میں سے جو بھی بعد میں فوت ہوگا، وہ اپنے دوست کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔ لہٰذا آپؓ کو جناب عثمان بن مظعونؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ جب آپؓ کی روح نئے سفر کی تیاری میں تھی تو آپؓ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے: ’’میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ مجھے میری دولت کی وجہ سے میرے دوستوں سے دور نہ کردیا جائے‘‘۔
لیکن جلد ہی آپ کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکنیت و اطمینان کا باریک غلاف آراستہ ہوگیا اور آپؓ کے کان کچھ سننے کے لیے یوں قریب ہوئے گویا وہاں کوئی شیریں آواز ہے۔ شاید اس وقت آپؓ رسول اللہؐ کے اس قول کو سن رہے تھے جو ایک مدت قبل آپؐ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: ’’عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں!‘‘
اور شاید آپؓ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں درج یہ وعدہ بھی سن رہے ہوں: ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، ان کا اجر اْن کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں‘‘۔ (البقرہ: 262)
(بشکریہ، اردو ڈائجسٹ)