موجود دور کی اپوزیشن جو 35 برس تک ایک دوسرے کے مدمقابل اقتدار پر براجمان رہی ہیں اور آج ڈراما کر رہی ہیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک پیج پر رہتے ہوئے سیاست کر سکیں۔ جو لوگ 35 برس سے ایک دوسرے کے سخت حریف رہے ہوں وہ آپس میں مل بیٹھ کر کیا فیصلے کر سکتے ہیں؟ ماضی اور حال کی دونوں اے پی سی کا جائزہ لیں تو غریب عوام کے مسائل پر کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اس مفاد پرست ٹولے کا احتجاج بھی موسم کی مناسبت سے طے کیا جاتا ہے کیوں کہ ٹھنڈے پُرسکون محلوں میں زندگی گزارنے والے یہ سیاستدان سڑکوں پر کیسے گرمی سردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ احتجاج کے لیے بھی ان کو اپنی مرضی کا موسم مہیا ہونا چاہیے کبھی آپ غور کریں کہ مریم بی بی، بلاول زرداری، مولانا صاحب کبھی ایک گھنٹے کے لیے بھی گرمی کی شدت میں بغیر سائے کے احتجاج کرتے دکھائی دیے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ان کو غریب عوام کی کتنی فکر ہے کہ خود تو یہ حضرات جن میں خان صاحب بھی شامل ہیں احتجاج کے لیے لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنے لیے کنٹینر بنواتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں غریب عوام کو سخت دھوپ سخت ترین سردی اور برسات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک اور جانب غور کریں یہ مفاد پرست ٹولہ اسمبلیوں سے استعفے بھی دینے سے خوف محسوس کرتا ہے کیوں کہ پارلیمنٹ میں یہ لوگ عوامی مسائل حل کرنے کے لیے نہیں بیٹھے بلکہ اس ملک و قوم کے پیسے پر مزے کرنے، مراعات حاصل کرنے کے لیے موجود رہنا چاہتے ہیں۔
بلاول زرداری سے تو استعفوں کا ذکر کریں تو ان کو جمہوریت کا درد اُٹھ جاتا ہے جبکہ سندھ اور خاص کر ملک کے معاشی حب کراچی کا اس جمہوریت نے بیڑا غرق کر دیا ہے۔ افسوس کہ 2008 میں جب پیپلزپارٹی ملک کے اقتدار پر براجمان ہوئی تو اس شہر کی ترقی و خوشحالی کو تالے لگ گئے ہیں۔ آزاد بلدیاتی نظام کو ہائی جیک کر کے غریب عوام کے مسائل میں اضافہ کر دیا گیا، حالیہ برسات میں پورا کراچی شہر ڈوب گیا مگر بلاول اور زرداری صاحب کسی گلی محلے میں عوام کے مسائل پر کھڑے نظر نہیں آئے مگر ناکام اے پی سی میں بلاول میزبانی اور سابق صدر آصف زرداری ویڈیولنگ کے ذریعے خطاب میں سب سے آگے نظر آئے۔ بارہ سال پہلے اٹھاویں ترمیم پیش کرکے زرداری صاحب نے کیا ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیا ہے؟۔ موٹروے میٹروبس اورینج لائن ٹرین چلا کر کیا میاں صاحب نے جاپان کو معاشی شکست دے دی ہے؟ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ بد قسمتی سے نااہل کرپٹ حکمرانوں کی بادشاہی میں وطن عزیز معاشی طور پربنگلا دیش، نیپال سے بھی کمزور بنا دیاگیا۔ کوئی دو رائے نہیں کہ پچھلے دو سال میں خان صاحب کے اقتدار نے غریب عوام کی چیخیں نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بجلی، گیس، پٹرول سمیت اشیائے سرف کی قیمتوں میں ہوش روبا اضافہ کیا گیا ہے روزگار کی فراہمی کے دعوے بے روزگاری کی جانب گامزن ہو گئے موجود حکومت کے وزراء کام کم اور دعوے زیادہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ہر وزیر اپنے وزارت کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرنے کے بجائے کرپشن احتساب کا راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے بیانے کی بنیاد پر اقتدار پر براجمان ہوئی ہے اگر خان صاحب اپنے بیانیے کو پائے تکمیل تک نہ پہنچا سکے تو قوم ان کو اگلے انتخابات میں مکمل مسترد کر دے گی، ساتھ ہی وزیر اعظم صاحب نے اس غریب قوم سے ان کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے دعوے کیے اس قوم کو جو نیا پاکستان ریاست مدینہ کا خواب دیکھایا جس کو پورا کرنا بھی خان صاحب کی اولین ذمے داری ہے۔
جہاں تک اپوزیشن کی اے پی سی کا تعلق ہے تو میاں صاحب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے ملک کی افواج کے خلاف دوسرے ملک میں بیٹھ کر تذلیل کا سبب بن رہے ہیں۔ میاں صاحب نے واضح کر دیا کہ وہ عوام کے منتخب وزیر اعظم نہیں بلکہ فوج کی مرہون منت تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ہمیں اس بحث سے گریز کرنا چاہیے ہر ذی شعور شخص یہ جانتا ہے کہ پاکستان میں حکومتیں کیسے بنتی اور ٹوٹتی رہی ہیں۔ ملک اس وقت معاشی بحران میں مبتلا ہے کورونا نے غریب کو سڑک پر کھڑا کر دیا ہے۔ بے روزگاری کا طوفان بڑھتا چلا جارہا ہے تعلیمی نظام کی مکمل بحالی پر سندھ سرکار پھر سیاست کر رہی ہے کورونا میں سندھ حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکی۔ برسات نے پیپلزپارٹی کا بد نما چہرہ پوری قوم کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ آج پورا ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے تو اپوزیشن اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔