الطاف حسین اور ایم کیو ایم دونوں کو بچالیا گیا

582

22ستمبر کو بلدیہ فیکٹری میں 264 افراد کے زندہ جلائے جانے کے حوالے سے جو فیصلہ آیا ہے اس نے پوری قوم کو اس تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ ہمارے یہاں انصاف کے ایوانوں میں بھی فیصلے آزادانہ نہیں ہوتے۔ اس فیصلے کے بعد فاروق ستار نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا بیان دیا کہ ’’بلدیہ فیکٹری کو جلانے کی کارروائی چند کارکنوں کی اپنی کارروائی تھی اس سے تنظیم کا کوئی تعلق نہیں‘‘۔ حالانکہ یہ وہ تنظیم ہے جس میں کوئی کارکن اپنی مرضی سے اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتا نہ کہ اتنی بڑی کارروائی چند کارکنان اپنی مرضی سے کر لیں اور پھر تنظیم ان کارکنان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی بھی نہ کرے۔ ایم کیو ایم کے کارکنان اگر کسی چیز سے ڈرتے تھے وہ یہی تھی ان کے خلاف یونٹ، سیکٹر یا نائن زیرو پر کوئی شکایت ہو اور انہیں طلب کرلیا جائے۔ فاروق ستار کیا یہ بات بھول گئے کہ ان کے ایم این اے ہوں، ایم پی اے ہوں یا میئر کراچی ہوں نائن زیرو کے کسی اجلاس میں دیر سے پہنچنے پر انہیں دیوار کی طرف منہ کرکے پندرہ منٹ یا آدھے گھنٹے کھڑا رہنے کی سزا دی جاتی تھی۔ وہ یہ بات بھی بھول گئے کہ ان کے بڑے بڑے رہنمائوں کو نائن زیرو میں الطاف حسین کی ہدایت پر کارکنان سے پٹوایا جاتا تھا۔ تنظیمی ہدایات کی خلاف ورزی پر کارکنان کو قتل تک کردیا جاتا تھا۔
11ستمبر 2012 کی رات کو جب فیکٹری میں آگ لگائی گئی تو اس وقت لیاقت آباد ٹائون کے سابق ناظم ڈاکٹر پرویز محمود حیات تھے، دوسرے دن ان کا بیان شائع ہوا کہ بلدیہ فیکٹری میں ایم کیو ایم نے خود آگ لگائی ہے، سچی بات یہ کہ مجھے یہ بیان اچھا نہیں لگا کہ ڈاکٹر صاحب تو ایم کیو ایم دشمنی میں ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کسی فیکٹری میں ڈھائی سو سے زائد لوگوں کو زندہ جلا دیا جائے کوئی بھی فرد اتنا سفاک تو نہیں ہو سکتا، پھر ڈاکٹر صاحب کا بیان آیا کہ وہ بہت جلد ایک پریس کانفرنس کرکے اس سانحے کی پوری تفصیل بیان کریں گے پھر اس واقعے کے پانچ دن بعد 17ستمبر کو انہیں شہید کردیا گیا۔ ان کے پاس اس سانحے کی پوری تفصیل آچکی تھی۔ کچھ عرصے بعد ان کے ہی لوگوں نے یہ راز فاش کردیا کہ 20کروڑ بھتا نہ دینے کی پاداش میں فیکٹری کو ورکرز سمیت جلا دیا گیا۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی شخص اتنا ’’بھولا‘‘ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ محض اپنے اوپر والے کے کہنے پر سیکڑوں انسانوں کو زندہ جلا دے یا کوئی فرد پاگل اور چریا بھی ہو تو اتنا ’’چریا‘‘ تو نہیں ہو سکتا اپنے ہی جیسے انسانوں کو جلا کر راکھ کر دے۔
جس وقت فیکٹری میں آگ لگ رہی تھی تو وہاں پر موجود ایم کیو ایم کے کارکنوں نے لوگوں کو بچانے کی خود کوشش کی نہ کسی دوسرے کو کرنے دی، دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جس وقت فیکٹری میں آگ لگ رہی تھی ایک لوڈنگ ٹرک والے نے یہ کہا کہ میں ٹرک سے دیوار میں ٹکر مار کر دیوار توڑ دوں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو بچا لیا جائے لیکن وہاں پر موجود کارکنوں نے اس ٹرک ڈرائیور کو دھمکی دے کر بھگا دیا۔ اب جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس میں صرف دو لوگوں کو سزائے موت دی گئی حالانکہ یہ اتنا دلخراش واقعہ ہے کہ اس میں تو سہولت کاروں کو بھی سخت سزائیں دینی چاہیے تھیں۔ پھر یہ کہ حماد صدیقی کو بھی پراسرار بنا دیا گیا کہ رحمان بھولا اور زبیر چریا دونوں نے یہ بیان دیا کہ انہوں نے حماد صدیقی کے حکم پر فیکٹری میں آگ لگائی۔ حماد صدیقی کے بارے میں پہلے کئی بار یہ خبریں آچکی تھیں کہ وہ ہماری ایجنسیوں کی تحویل میں ہے، لیکن شاید یہ خبر غلط ہو اس لیے کہ انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا کہ اس سے بھی پوچھا جاتا کہ آپ نے فیکٹری میں آگ لگانے کا حکم کیوں دیا۔
حماد صدیقی کے پاس دو جواب ہوتے پہلا یہ کہ ہم نے کوئی حکم نہیں دیا یہ ان لوگوں کی اپنی کارروائی ہے دوسرا جواب یہ ہوتا کہ وہ اپنے اوپر والوں کا نام لیتے کہ ان کے حکم پر ہم نے ان لوگوں کو کہا کہ فیکٹری کو مزدوروں سمیت جلا دیں۔ حماد صدیقی کو مفرور قرار دے کر دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان بین الاقوامی ایجنسیوں کا دبائو آیا ہے جو الطاف حسین کو اس سانحے سے بچانا چاہتے ہیں اسی طرح ایم کیو ایم کو بھی بچالیا گیا یہ جو فیصلے کو محفوظ کیا گیا پھر اس میں تاریخ آگے بڑھائی گئی اس درمیان میں یہی خفیہ سرگرمیاں ہوتی رہیں کہ ایم کیو ایم کو کسی طرح اس سے بچا لیا جائے ورنہ اگر اس سانحے کا ذمے دار ایم کیو ایم کو قرار دیا جاتا تو اس ملک سے ایم کیو ایم کی سیاست ختم ہوجاتی۔