سیاست دانوں کی ذمے داری

288

بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ اے پی سی کی دو اقسام ہیں ایک میڈیکل اے پی سی اور دوسری سیاسی اے پی سی۔ میڈیکل اے پی سی نزلہ، زکام سر درد اور بخار میں فرسٹ ایڈ کا کام کرتی ہے۔ اور سیاسی اے پی سی قوم کو سر درد، نزلہ زکام میں مبتلا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ میڈیکل اے پی سی متروک ہوچکی ہے۔ اس لیے نئی نسل اس سے واقف نہیں۔ یہی حال سیاسی اے پی سی کا ہے مگر جب سے تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے۔ سیاسی اے پی سی بھی جوبن پر آگئی ہے۔
مولانا فضل الرحمن آئے دن اے پی سی کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور عملی طور پر بھی اس کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ وطن عزیز کے تمام سیاست دان بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ کسی بھی حکومت کو اے پی سی یا دھرنے کے ذریعے ختم نہیںکیا جاسکتا۔ یوں بھی عمران خان کی حکومت قوم پر پانچ سال کے لیے مسلط کی گئی ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید بھی اس حقیقت سے واقف ہیں مگر وہ اس حقیقت کو پیش گوئی کی صورت میں پیش کرتے رہتے ہیں اور اپنے حواریوں سے داد و تحسین سمیٹے رہتے ہیں۔ موصوف اے پی سی کو اے بی سی کہتے ہیں۔ واقعی سیاسی اے پی سی سیاست کی اے بی سی ہے۔ اور جب تک اے بی سی کی گردان کرنے والے ایکس وائی زیڈ تک پہنچے گے وزیر اعظم عمران خان کی مدت اقتدار بھی پوری ہوچکی ہوگی۔ اور شیخ رشید راولپنڈی کے کسی پھٹے پر بیٹھے کبھی نان چھولے اور کبھی حلوا پوری کھار ہے ہوں گے۔ حلوے پر یاد آیا کہ تحریک انصاف کی وفاداروں نے حلوے کی اتنی گردان کی ہے کہ مولوی بھی اس سے الرجک ہوچکے ہیں۔
اپوزیشن کے جماعتوں نے پاکستان ڈیمو کریٹک کے نام سے اتحاد قائم کر لیا ہے اور اس اتحاد میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت کو جنوری تک مہلت دی جائے۔ اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان نے جنوری تک استعفا نہ دیا تو ملک گیر تحریک چلائی جائے گی۔ اسلام آباد تک لانگ مارچ بھی کیا جائے گا اگر حکومت مستعفی نہ ہوئی تو نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر حکومت نے نئے انتخابات نہ کرائے اور وزیر اعظم عمران خان نے استعفا نہ دیا تو دھرنا دیا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر عدم اعتماد کی تحریک لانے پر بھی غور کیا جائے گا۔
ایک ٹی وی چینل کی خبر کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے ایک ٹرتھ کمیشن قائم کیا جائے گا جو 1947ء اب تک پاکستان کی سیاسی تاریخ پر مبنی حقائق سے قوم کو آگاہ کرے گی۔ اچھا ہوتا اگر قیام پاکستان کی جدوجہد کے حقائق سے بھی قوم کو آگاہ کیا جاتا۔ وفاقی وزیر ریلوے نے اے پی سی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف نے اپنا سیاسی صفحہ پھاڑ دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ فوج اور حکومت ایک پیچ پر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ اپنا صفحہ فوج نے پھاڑا ہے یا حکومت نے کیونکہ ایک پیچ پر آنے کے لیے دوسرے فریق کو اپنا صفحہ پھاڑنا پڑتا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے وہ جب سے ایوان اقتدار سے باہر آئے ہیں اپنی مظلومیت کا رونا ہی روتے ہیںگویا ان کی نظروں میں عدالتوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ پیپلز پارٹی بھٹو مرحوم کے عدالتی فیصلے کو عدالتی قتل قرار دیتی رہی ہے۔ اور مسلم لیگ اس فیصلے کو عدلیہ کی آزادی کا ثبوت قرار دیتی رہی ہے مگر نواز شریف جو بھٹو کے خلاف فیصلے پر سر دھنتے رہے ہیں اب اس فیصلے کو عدالتی قتل کہہ رہے ہیں۔ خدا جانے وہ پہلے سچ بول رہے تھے یا اب سچ بول رہے ہیں۔
میاں نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی لگایا ہے خدا جانے میاں نواز شریف کو اس حقیقت کا ادراک کب ہوگا کہ عوام کا کام صرف ووٹ دینا ہے اور ووٹ کو عزت دینا سیاست دانوں کا کام ہے عوام تو اپنی ذمے داری احسن طریقے سے نبھاتے آئے ہیں مگر سیاست دان ووٹ کو عزت دینے پر کسی صورت آمادہ نہیں۔ ووٹ لے کر ایوان اقتدا کو عشرت گہہ خسرو بنانے والوں نے عیش و عشرت کے خلاف کچھ نہیں کیا سیاست دان ووٹ کو اقتدار کا ذریعہ سمجھتے ہیں اگر سیاست دان ووٹر اور ووٹ کو عزت دیتے تو قیادت کا بحران پیدا ہوتا نہ عوام کو مافیائوں کے ظلم سہنے پڑتے۔