لا محدود اختیارات کی کوششیں

353

پاکستان کی حکومت بھی دیگر ممالک کی طرح دہشت گردی ، منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کے حوالے سے اپنے اختیارات لا محدود کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ منی لانڈرنگ کے خلاف ایف اے ٹی ایف کی ہدایت کی روشنی میں حال ہی میں ہونے والی آئینی ترمیم کے بعد حکومت نے وسیع اختیارات کے حصول کے لیے اہم اداروں پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو خزانہ ، خارجہ ، قانون اور داخلہ کے وزراء ،مشیران ،گورنر اسٹیٹ بینک ، ایس ای سی پی کے چیئر مین ،ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی حکام پر مشتمل ہو گی ۔ نئے قانون کے تحت یہ ملکی ادارے دوسرے ممالک سے اطلاعات کے باہمی تبادلے اور امداد حاصل کرنے کے مجاز ہوں ے ۔ ایک اطلاع ہے کہ چار وفاقی سیکرٹریز چیئر مین نیب ، ایف آئی اے ، ایف بی آر ، اینٹی نار کو ٹکس کے سربراہ کمیٹی کا حصہ بنیں گے ۔ اس کے علاوہ ریگو لیٹری اتھارٹیز کے لیے خود مختار ادارے ہوں گے۔ ایک سینئر وکیل کاشف ملک نے انکشاف کیا ہے کہ قانون کے نفاذ کے 30روز کے اندر این ای سی پی کا قیام عمل میں آئے گا جو ایکٹ پر عمل کے لیے تجاویز پیش کرے گی ۔ اگر اس خبر کو بار بار پڑھا جائے تب بھی ایک عام پڑھا لکھا قاری بھی پوچھے گا کہ یہ کیا ہے ۔ یہ بات کسی رکن پارلیمنٹ سے پوچھی جائے تو اسے بھی نہیں معلوم ہو گا کہ یہ کیا ہے ۔ در اصل یہ اختیارات کے حصول کی وہی خواہش ہے جو پاکستان میں فوجی آمر وں کو دنیا بھر کے حکمرانوں کو سول جمہوری لیڈروںکو اپنا اقتدار ہمیشہ بر قرار رکھنے کے لیے درکار ہے۔ اور یہ عجیب تماشا ہے کہ جو لوگ ایسے اختیارات چاہتے ہیں بلکہ حاصل بھی کر لیتے ہیں وہ خود دنیا میں اور اقتدار میں نہیں رہتے ۔ آج کل کے عالمی حالات اور سیاست کے تناظر میں ان اختیارات کو منی لانڈرنگ کے خلاف جدو جہد کا نام دیا گیا ہے ۔گزشتہ بیس سال دہشت گردی کے خلاف جدو جہد کے لیے ایسے ہی اختیارات کے حصول میں گزرے ۔ تمام اختیارات حاصل کر لیے گئے لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہوئی بلکہ امریکا ، فرا نس ، جرمنی ، نیوزی لینڈ اور برطانیہ میں خود ان کے لوگ اس میں ملوث ہونے لگے ۔ امریکی صدر بش نے ہوم لینڈ سیکورٹی کے نام پر بے بہا اختیارات حاصل کیے لیکن بہر حال انہیں جانا ہی تھا وہ چلے گئے ۔ باراک اوباما آئے اور گئے۔ اسی طرح پاکستان میں ضیاء الحق ، بھٹوٍ،مشرف ، بے نظیر ، نواز شریف یہ سب اختیارات کا چوک گھنٹہ گھر بنے ہوئے تھے لیکن وقت آنے پر اس چوک پر سرخ بتی نے ان کا راستہ روک دیا آج کل یہ سب اقتدار سے باہر ہیں ، عمران خان اختیارات کے مالک سمجھے جاتے ہیں لیکن حالیہ ترامیم اور مجوزہ قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ملک کے بہت سے ادارے منی لانڈرنگ کے خلاف وسیع اختیارات کے حامل ہو جائیں گے ۔ تو کیا دنیا سے منی لانڈرنگ ختم ہو جائے گی ۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر قسم کی فورسز بنائی گئیں ، تمام ممالک نے نت نئے قوانین بنائے لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہوئی ۔ البتہ ہر قانون کے نتیجے میں شہری آزادیاں سلب ہوئیں ۔ اب بھی جوقانون نافذ ہونے جارہا ہے اس کے نتیجے میں شہری آزادیوں ہی کو خطرہ ہے ۔ بچی کھچی آزادیاں بھی ختم ہونے کا خدشہ ہے ۔ مجوزہ قانون کے نفاذ سے ہر شہری کا بنک اکائونٹ ان اداروں کی پہنچ میں ہو گا ۔ حال ہی میں یہ فیصلہ بھی ہو چکا ہے کہ بینکس اپنے کھاتیداروں کی معلومات ایف بی آر کو دینے کے پابند ہوں گے ۔اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ایف بی آر سے یہ معلومات آگے نہیں جائیں گی ۔ اور جب ایف بی آر بھی اس کمیٹی کا حصہ بن جائے گا تو وہ یہ معلومات شیئر کرنے کا پابند ہو گا ۔ تو پھر لوگ اپنی رقوم اور بچتیں بینکوں میں کیوں رکھیں گے ۔ صرف منی لانڈرنگ کرنے والے تو اپنے گھروں میں نوٹ نہیں رکھتے ۔ جب لوگ اپنی دولت کو غیر محفوظ سمجھیں گے تو بینکوں کے بجائے گھروں میں رقوم رکھنے کو ترجیح دیں گے ۔ یا بیرون ملک اکائونٹ کھولیں گے۔ کیونکہ آج کل کا طریقہ تو یہی ہے کہ ایک الزام لگا اور اکائونٹس منجمد۔ پھر کاروبار بھی گیا اور گھر کا خرچہ بھی بند ۔ جب اس قدر بد اعتمادی کا ماحول ہوگا تو لوگ کچھ تو کریں گے ۔ اب تک ایف آئی اے اور دیگر ادارے موجود ہیں جو مالی معاملات کی تفتیش ہی کرتے ہیں ۔ کسی کے خلاف بھی مقدمات ثابت نہیں کر پائے اور ان کا نشانہ عموماً دو تین بڑے سیاسی رہنما رہے ہیں ۔ توقع یہی ہے کہ اب بھی ان ہی رہنمائوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ایسے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن اختیارات سے کیا ہوتا ہے ۔ حکمرانوں کو30برس تک کراچی سے لندن تک دبئی اور بھارت کے راستے منی لانڈرنگ کا علم تھا ۔ لیکن کچھ نہیں کیا گیا ۔ہاں یہ اطلاعات ضرور ہیں کہ اس وقت کے حکمراں آصف علی زداری نے ان معلومات کا خوب فائدہ اٹھایا تھا ۔ تو اس بات کا اب بھی امکان ہے کہ عام کھاتیداربھی کسی چکر میں آ سکتا ہے ۔ بڑوں کا تو اب تک کچھ نہیں ہوا بلکہ مسلسل حفاظتی قید میں ہیں یا بیرون ملک ۔ ایسے قوانین عوام کے مفاد کے نام پر ضرور بنتے ہیں لیکن شہری آزادیاں ہی سلب ہوتی ہیں ۔ ایک نکتہ وضاحت طلب ہے کہ اہم ملکی ادارے دوسرے ممالک سے اطلاعات کے باہمی تبادلے اور امداد حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔ یہ امداد مالی ہے یا کسی اور قسم کی ۔ کیونکہ بیرون ملک سے مالی امداد لینے کے نتیجے میں ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کا راستہ کھل سکتا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں کون اس کی وضاحت طلب کرے گا ۔