بی آر ٹی سروس کی معطلی

344

پشاورحیات آباد میں گزشتہ دنوں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی بس میں اچانک آگ بھڑک اٹھنے کے بعد بی آر ٹی سروس کی معطلی کے بعد اس بات کی نشاندہی ہوگئی ہے کہ آگ لگنے کی وجہ غیرمعمولی اور غیر متوقع بیرونی حالات اور بسوں کے موٹر کیپسٹر کنٹرولر میں شارٹ سرکٹ ہے۔ واضح رہے کہ دوسال کی تاخیر اور کرپشن کے سنگین الزامات کے سائے میں شروع ہونے والی میٹرو بس سروس کو گزشتہ دنوں اس وقت تاحکم ثانی بند کردیا گیا تھا جب ایک بس میں حیات آباد کے ایک فیڈر روٹ پر آگ بھڑک اٹھی تھی۔ متذکرہ بس گزشتہ ایک ماہ کے دوران آگ کی لپیٹ میں آنے والی پہلی بس نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بھی پندرہ بیس دنوں کے دوران چار بسوں میں آگ لگنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ بسوں کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان تمام بسوں میں آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے بس کی ہائبرڈ بیٹریوں میں لگی تھی جس کے بعد بس سروس کو نہ صرف عارضی طور پر معطل کردیا گیا بلکہ ان بسوں کی جانچ پڑتال کے لیے چین سے متعلقہ کمپنی کے ماہرین کو بھی فوری طور پر طلب کرلیا گیا جنہوں نے ایک ہفتے کی تگ ودو کے بعد اب مندجہ بالا رپورٹ دے کر بی آرٹی حکام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ 25اکتوبر تک ضروری کام مکمل کر کے سروس کو بحال کردیا جائے گا۔
واضح رہے کہ خیبر پختون خوا حکومت کے گلے کی ہڈی بننے والا یہ منصوبہ پاکستان تحریک انصاف کی گزشتہ دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا جس پر اخراجات کا ابتدائی تخمینہ 48ارب روپے لگایا گیا تھا جو بعدازاں بار بار کی ترامیم کے تحت بڑھ کرسرکاری اعداد وشمار کے مطابق 66ارب جب کہ غیرسرکاری ذرائع کے مطابق 78ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان پشاور میٹرو کی افتتاحی تقریب میں تعریفوں کے پل باندھنے سے پہلے کھلے عام میٹرو سروس کو کرپشن کا ذریعہ اور اسے حقارت سے جنگلا بس قراردیتے نہیں تھکتے تھے لیکن جب یہی منصوبہ اہل پشاور کے سروں پر بجلی بن کر گرایا گیا تو عمران خان اس کے آگے نہ صرف بے بس نظر آئے بلکہ اس کے افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہو کر ایک بار پھر قوم پر یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ بڑ الیڈر یقینا وہی ہوتا ہے جو دھڑلے سے اپنی بات سے پھرنے کے فن کا ماہر ہو جس پر انہیں سوشل میڈیا پر کئی طنزیہ جملے اور تبصرے بھی سننے کو ملے۔
خدا خدا کرکے گزشتہ دنوں طویل تاخیر اور اہل پشاور کے صبر کا سخت ترین امتحان لینے کے بعد جب بی آرٹی سروس کا باقاعدہ آغاز ہوا تو سرمنڈاتے ہی اولے پڑے کے مصداق بی آرٹی بسیں چالو تو ہوگئیں لیکن ان میں آگ لگنے کے پے درپے واقعات نے جہاں اس منصوبے کا بھرم کھول کررکھ دیا ہے وہاں اس اربوں روپے خرچ کرکے خریدی جانے والی بسوں میں سامنے آنے والی تکنیکی خامیوں سے بھی اس منصوبے کا بھانڈا عین چوراہے میں پھوڑ دیا۔ یاد رہے کہ ابتدائی منصوبے کے مطابق بس سروس شروع ہونے کے بعد اس روٹ پر چلنے والی دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کو مرحلہ وار یہاں سے ختم کرنے کا کہا گیا تھا اور اس ضمن میں حکومت کو ایک برس تک اس ٹرانسپورٹ کے مالکان کو معاوضہ ادا کرنا تھا تاکہ لوگ اس سروس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی کم ہو لیکن اس ضمن میں بھی تاحال کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی بلکہ رکشہ ڈرائیورز یونین اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کا دروازہ یہ کہہ کر کھٹکھٹا چکی ہے کہ اس فیصلے سے لاکھوں افراد کے بے روزگار اور متاثر ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا انہیں بے روزگار ہونے سے بچایا جائے۔ بی آر ٹی حکام کے مطابق اس سلسلے میں متعدد ٹرانسپورٹ تنظیموں کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری ہے جبکہ چند کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں اور مرحلہ وار کوشش کی جائے گی کہ پرانے ٹرانسپورٹ کو اس روٹ سے ختم کیا جائے تاکہ نہ صرف ماحول میں آلودگی کم ہو بلکہ شہر میں ٹریفک کے دباؤ میں بھی کمی آئے۔ 2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو سے کہا تھا کہ بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کی جائیں لیکن صوبائی حکومت نے اس فیصلے پر عدالت عظمیٰ سے حکم امتناع حاصل کر لیا تھا۔ بعد ازاں گزشتہ برس کے آخر میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے بی آر ٹی کی تحقیقات شروع کر دی تھیں جس پر رواں برس فروری میں عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے کو اس منصوبے کی تحقیقات سے روک دیا تھا۔ اس تمام صورتحال کے تناظر میں اب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کتنا جلد بی آر ٹی بسوں میں لگنے والی آگ جیسے واقعات کا تدارک کرنے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے میں شامل حیات آباد، ڈبگری اور چمکنی کے تین ڈپوئوں، تجارتی پلازوں اور سائیکل ٹریکس کی تعمیر کب مکمل کرتی ہے اور اس منصوبے سے متاثر ہونے والے تاجروں، لوکل ٹرانسپورٹ مالکان، ڈرائیوروں اور دیگر متعلقہ افراد کی داد رسی کب اور کیسے کرتی ہے، یہ صوبائی حکومت کا بی آرٹی کے حوالے سے یقینا ایک کڑا امتحان ہے۔