قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت خارج ہونے پر نیب نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ اسلام آباد احتساب عدالت نے جعلی اکائونٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور پر فرد جرم عاید کردی۔ اب اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جائے گا کسی کو ضمانت ملے گی کسی کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے گا پھر کوئی نیا مقدمہ سامنے آئے گا پھر گرفتاری ہوگی پھر نئی اپیل ہوگی اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ پاکستانی عوام کو ایسے سیاسی ڈراموں کے ذریعے دوچار ناموں کے جال میں پھنسا کر رکھا جاتا ہے۔ عوام کو میڈیا کے ذریعے سمجھایا جاتا ہے کہ آج کل فلاں صاحب بہت اچھے ہیں اور فلاں صاحب بہت برے ہوگئے ہیں۔ پھر یہی میڈیا بتاتا ہے کہ عوام کے دکھوں کا علاج فلاں صاحب ہیں۔ اور پھر دونوں خراب لوگوں کے ہمنوائوں کا ہجوم اس نئے لیڈر کے گرد جمع ہو کر تبدیلی لے آتا ہے۔ آج کل بھی یہی حال ہے۔ شہباز شریف سے معاملات طے پاگئے تو وہ لیڈر ہوں گے اور اگر نہیں بنے تو پیپلز پارٹی ورنہ تبدیلی تو آچکی ہے اس سے کام چلاتے رہیں گے۔ اب شہباز شریف اور مسلم لیگ خبروں کا موضوع ہیں۔ حکمرانوں نے دو سال پہلے تک تمام خرابیوں کے ذمے دار سمجھے جانے والوں کو بے چارا بنا کر رکھ دیا ہے۔ ان رہنمائوں سے ہمدردی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کیا صرف دو ہی چور تھے کوئی اور بڑا چور ہی نہیں کوئی اور آمدن سے زاید اثاثے نہیں رکھتا کوئی منی لانڈرنگ نہیں کرتا یہ رہنما بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے لیکن ان کے مقدمات کی سماعتیں ہوتی رہتی ہیں۔ سزا ہوتی ہے نہ بری ہوتے ہیں عوام تماشے کے مزے لیتے رہتے ہیں۔