مودی کے بت پر بلقیس بانو کی کنکریاں

317

وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جس طرح نریندر مودی اور ان کے بھارت کی عمومی ذہنیت، متعصبانہ سوچ اور حکمتِ عملی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے تھے اُس سے توقع یہی تھی کہ وہ جواب میں پاکستان اور چین کا تذکرہ ضرور کریں گے۔ کشمیر کو ’’اٹوٹ انگ‘‘ کہنے کی گردان دہرائیں گے اور دہشت گردی کا منترا پڑھ کر دنیا کو رام کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کے ساتھ تو بھارت حالتِ جنگ میں کھڑا ہے، اور چین کے ساتھ بھی اُس کے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر نمایاں ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق گلوان وادی اور پنگاگ جھیل کے علاقے میں چین وسیع وعریض رقبے پر قبضہ کرچکا ہے۔ دونوں طرف سے مذاکرات جاری ہیں مگر تاحال ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس پسِ منظر میں بھارتی عوام اور میڈیا بھی نریندر مودی سے ایک غیر معمولی خطاب کی توقع لگائے ہوئے تھے۔ ٹی وی اسٹوڈیوز میں اس تقریر پر تجزیوں کے لیے ماہرین کو لابٹھایا گیا تھا کہ اُدھر مودی پاکستان اور چین کے خلاف آگ اُگلیں گے، اِدھر سیاسی تجزیہ نگار اس پر مودی کی ٹارزن جیسی شبیہ بناکر پیش کریں گے۔ لیکن مودی کی تقریر نے ان سب کی امیدوں پر اوس ڈال دی۔ مودی نے اقوام متحدہ کے اس عالمی ادارے سے سب سے پھسپھسا خطاب کیا۔ حد تو یہ کہ خود بھارت کے ذرائع ابلاغ نے بھی اپنے چھپن انچ چوڑا سینہ رکھنے والے وزیراعظم کی تقریر کو چنداں اہمیت نہیں دی۔
مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کے ایک ارب تیس کروڑ لوگ اقوام متحدہ میں اصلاحات کے مکمل ہونے کے انتظار میں ہیں۔ آج بھارت کے لوگ تشویش میں مبتلا ہیں کہ آیا یہ عمل تکمیل کو پہنچے گا بھی یا نہیں؟ آخر کب تک بھارت کو فیصلہ سازی سے الگ رکھا جائے گا؟ اس کے بعد مودی نے کورونا وبا اور ویکسین پر بات کی، بھارت کی جمہوریت کا تذکرہ کیا، ماضی کے بھارت کی داستان چھیڑی، مگر ان کی تقریر اُن چیلنجز کے ذکر سے خالی رہی جن کا بھارت کو لمحہ ٔ موجود میں سامنا ہے۔
بھارت جس طرح اپنا عالمی قد اونچا کرکے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت چاہتا ہے اس خواہش پر عمران خان کی تقریر نے اوس ڈال دی ہے۔ عمران خان نے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے دعوے دار اور خواہش مند بھارت کو دنیا کا بدترین متعصب، نسل پرست، اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کو روندنے والا ثابت کیا تھا۔ بھارت کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ عمران خان اپنے روایتی کھلے ڈلے انداز میں مودی کی سیاست اور مودی کے ہندوستان کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیں گے، اسی لیے عمران خان کی تقریر شروع ہوتے ہی بھارتی نمائندہ اجلاس سے واک آئوٹ کرگیا، اور تقریر کے جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے بھارتی نمائندے کا یہ کہنا تھا کہ کل آپ نے ایک ایسے شخص کو سنا جس نے پارلیمنٹ میں اسامہ بن لادن کو شہید کہا۔ عمران خان کے خلاف چارج شیٹ پیش کرنے کے لیے بھارت کے پاس یہی ایک نکتہ باقی رہ گیا تھا، جبکہ عمران خان نے جس تفصیل سے بھارت کی سوچ وفکر اور اُس کے نئے اُبھرتے ہوئے خدوخال کو دنیا کے سامنے بیان کرکے مودی اور بھارت کے سارے نقاب نوچ ڈالے ہیں اس کے بعد مودی کے پاس اپنی صفائی میں پیش کرنے کو کچھ بھی باقی نہیں تھا، اس لیے نریندر مودی نے تقریر کے نام پر آئیں بائیں شائیں سے کام چلایا۔ یہ کمزور تقریر مودی کے لاجواب ہوجانے کا ثبوت ہے، اور اس سے بھارت میں عمومی طور پر مایوسی پھیل گئی ہے۔
اقوام متحدہ کُشتی کا کوئی اکھاڑا یا میدانِ جنگ نہیں ہوتا جہاں زورِ بازو آزمایا جائے، حریف کو چاروں شانے چت کیا جائے اور تیر وتفنگ کو آزمایا جائے۔ یہ سال میں ایک بار منعقد ہونے والا عالمی اجتماع ہوتا ہے جس میں زورِ بازو کے بجائے زورِ کلام دیکھا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی عالمی لیڈر نے اپنا اور اپنی قوم وملک کا مقدمہ کس انداز میں لڑا۔ کرۂ ارض کو درپیش چیلنجز پر کس بصیرت اور خیالات کا مظاہرہ کیا۔ حقیقت میں یہ عالمی راہنمائوں کا تقریری مقابلہ ہی ہوتا ہے جس میں لیڈرشپ کا وژن تلاش کیا جاتا ہے۔ مودی عالمی فورم پر یہ مقابلہ ہار گیا ہے۔ اس لیے مودی کے پاس اپنے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرنے کو کچھ باقی نہیں رہا۔
مودی کشمیر میں جو کھیل کھیل رہا ہے اس پر تمام دنیا کے ذرائع ابلاغ مسلسل رپورٹنگ کررہے ہیں۔ خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس پر بند کمرہ اجلاسوں میں بات کرچکی ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع رہ چکا ہے۔ شہریت قانون کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کے دھرنے میں متحرک 82 سالہ
خاتون بلقیس بانو المعروف ’’شاہین باغ کی دادی‘‘ اور ’’دبنگ دادی‘‘ کو امریکا کے شہرۂ آفاق میگزین ’’ٹائم‘‘ کی طرف سے مودی کے پہلو بہ پہلو دنیا کی سو بااثر شخصیات میں شامل کرنا مودی کی جمہوریت اور سیکولرازم کے دعووں کا بین الاقوامی استرداد ہے۔ میگزین نے مودی کو دنیا کی بااثر شخصیات میں شامل تو کیا مگر تصویر کے لفظی خاکے اور تبصرے میں سارا مزہ خراب کردیا۔ میگزین نے ایک جملے میں ہی مودی کی سیاست کا یہ کہہ کر بیڑہ غرق کیا کہ ’’مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے وزیراعظم ہیں‘‘۔ یوں مودی کے مقابلے میں مزاحمت اور جرأت کی علامت کے طور پر بھارت کی ایک ضعیف العمر اور کمزور مسلمان خاتون کا انتخاب اس کے ٹارزن ہونے کی قلعی کھول دیتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ مودی کے مقابلے میں مزاحمت کی علامت کے طور پر اسد الدین اویسی یا کسی طالب علم راہنما سمیت کسی اور مسلمان سیاسی شخصیت کا انتخاب کیا جاتا جس نے شہریت کے ترمیمی بل کے خلاف مہم میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ مگر چھپن انچ چوڑے سینے کے مقابلے میں دھان پان سی خاتون کو مزاحمت کی علامت بنانا ٹارزن کے مجسمے اور امیج کے بت کو کرچی کرچی کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ عمران خان نے مودی کی شخصیت اور سوچ وفکر کے بارے میں جو کچھ کہا، ٹائم میگزین کے اس ایک جملے میں اس کا خلاصہ موجود ہے کہ ’’یوں لگتا ہے مودی صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کے وزیراعظم ہیں‘‘۔ عالمی ایوان میں ان شواہد اور حقائق کو جھٹلانے کے بجائے مودی نے خاموشی کا ہی راستہ اختیار کرنے میں عافیت جان لی۔