اداروں کو کون متنازع بنا رہا ہے

365

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو چکا۔ تمام مسائل حل ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں کہیں مہنگائی نہیں ہے۔ امن وامان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ رشوت خوری ختم ہو چکی ہے جس سرکاری دفتر میں جائیں افسران اٹھ کر استقبال کرتے ہیں، چائے پیش کرتے ہیں، سائل کو ہر طرح سہولت دیتے ہیں اور اس کا تسلی بخش کام کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں اس لیے حکومت مطمئن ہے، کابینہ فارغ ہے، کشمیر آزاد ہو چکا ہے، بھارت کو اوقات میں رکھا ہوا ہے اور دنیا پاکستان سے بھیک مانگنے آتی ہے۔ اسی لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس میاں نواز شریف کو برطانیہ سے پاکستان لانے کے اقدامات کے لیے منعقد ہوتا ہے۔ وزارت خارجہ کو بھی کشمیر کو چھوڑ کر نواز شریف کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کو اس کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ اس پر بھی بس نہیں کیا گیا بلکہ کابینہ کے جو ارکان پاکستانی قوم کے تمام مسائل حل ہو جانے کی وجہ سے بے کار بیٹھے تھے انہیں بھی اپوزیشن کی تحریک اور سیاسی امور پر نظر رکھنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ ان میں اسد عمر، شفقت محمود، شیخ رشید، فواد چودھری، شہزاد اکبر اور بابر اعوان شامل ہیں۔ حالانکہ یہ وزرا تو اپنی وزارتوں اور مشاورتوں کو چھوڑ کر پہلے ہی اپوزیشن پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ مجال ہے جو ریلوے کے گھپلوں اور بدعنوانیوں پر کوئی کارروائی ہو جائے۔ شفقت محمود ملک میں تعلیم عام کر چکے اب اپوزیشن پر نظر رکھیں گے۔ فواد چودھری نے سائنسی ترقی میں کمال حاصل کرنے کے بعد گھر بیٹھے اپوزیشن کی نگرانی شروع کر دی ہے۔ وفاقی کابینہ نے نواز شریف کی برطانیہ سے واپسی کے اقدامات کی منظوری دی۔ برطانوی حکومت کو پھر خط لکھا جائے گا۔ وزیراعظم یہ سارے احکامات دینے کے بعد فرماتے ہیں کہ اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ ن لیگی رہنما غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اداروں کو متنازع بنا رہے ہیں۔ لیکن اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے تمام تحقیقاتی اداروں کو اپوزیشن کے پیچھے لگا رکھا ہے اور اس میں بھی خاص نشانہ شریف خاندان اور پھر زرداری فیملی ہے۔ وزیراعظم بار بار فوج کا نام لے کر اسے بدنام کر رہے ہیں ورنہ ان کے اقدامات تو یکطرفہ اور غیر قانونی ہیں جن کو یہ ثابت کر رہے ہیں۔ چلیں نواز و شہباز اور زرداری تو فریق ہیں، فضل الرحمن پر الزام لگ سکتا ہے کہ وہ عمران حکومت کے گرنے کے بعد کوئی فائدہ اٹھائیں گے لیکن اس اپوزیشن کی اے پی پی سی میں نہ جانے والے سینیٹر سراج الحق نے بھی تو یہی کہا ہے کہ حکومت نے اسٹیبشلمنٹ اور اداروں کو متنازع بنا دیا۔ پارلیمنٹ کی عزت کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔ ان کا سوال بجا ہے کہ نیب کو حکومت میں بیٹھے لٹیرے کیوں نظر نہیں آتے۔ وفاق خود صوبوں کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہا ہے۔ سراج الحق اس سے قبل بھی کئی مرتبہ حکومت، نیب اور دیگر اداروں کو متوجہ کر چکے ہیں کہ احتساب صرف چند مخصوص لوگوں کا کیوں ہو رہا ہے۔ پاناما لیکس کے بقیہ 450 لوگوں کے لیے رعایتیں کیوں ہیں۔ وزیراعظم پوری حکومت کو صرف شریف و زرداری خاندان کے خلاف مصرف رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت روزانہ کشمیر میں ایک قدم آگے بڑھاتا ہے۔ بابری مسجد کے مجرموں کو بری کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میں ہندو آبادی کا تناسب بڑھایا جا رہا ہے۔ تیزی سے نت نئے قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں اور ہماری حکومت صرف دو خاندانوں کے پیچھے گھوم رہی ہے۔ پیٹرول، آٹا، چینی، چاول، دال سبزی، گوشت پھل ہر شے مہنگی ہو چکی۔ کسی چیز پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ بس ہر ہفتے بیان آتا ہے کہ فوج میرے ساتھ ہے۔ تو پھر لوگ طرح طرح کے سوالات اٹھائیں گے۔ میاں نواز شریف کا معاملہ تو الگ ہے وہ فوج کے بارے میں بیان بھی دے رہے ہیں اور فوج کے ساتھ معاملات بھی ٹھیک رکھنا چاہتے ہیں۔ فی الحال انہوں نے فوجی قیادت اور ایجنسیوں سے پارٹی رہنمائوں کی ملاقاتوں پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ عمران خان اسے اداروں کو متنازع بنانا قرار دے رہے ہیں لیکن نواز شریف کا مقصد کچھ بھی ہو، جب ملاقاتیں نہیں ہوں گی تو کوئی تبصرہ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی اداروں کو ملوث بھی نہیںکرے گا۔ آئی ایس پی آر کو بھی بیان اور وضاحت جاری نہیں کرنی پڑے گی۔ ان ملاقاتوں سے بھی تو فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ایک ہی روز قبل جسٹس فائز عیسیٰ قاضی نے ہر ایک کو اپنے حلف کی پاسداری کا مشورہ دیا ہے۔ مشورہ صائب ہے ارکان پارلیمان اپنے حلف کی پاسداری کریں عوام کی نمائندگی کریں، بدنیتی پر قانون سازی نہ کریں، خدمت کریں، مال نہ بنائیں تو دوسروں پر بھی نظر رکھ سکیں گے۔ عدلیہ بھی اپنے حلف کی پاسداری کرے تو کوئی پارلیمنٹ یا حکومت غلط راہ پر نہیں چلے گی اور فوجی جرنیل بھی کوئی سیاسی مداخلت نہین کریں گے۔ وزیراعظم یہ نہ سمجھیں کہ ان کے کہہ دینے سے سب یہ یقین کریں گے کہ اپوزیشن اداروں اور اسٹیبشلمنٹ کو متنازع بنا رہی ہے۔ وہ جتنی مرتبہ فوج کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں گے اتنی ہی مرتبہ فوج کو متنازع بنائیں گے پھر اپوزیشن بھی تنقید کرے گی۔ وزیراعظم دو سال سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود سوائے تقریروں کے کچھ نہیں کر سکے۔ عوام کے حالات سخت سے سخت ہو رہے ہیں جن اشیائے ضروریہ کا ذکر کیا گیا ہے ان کی قیمتوں کا معاملہ بھی لوگوں کی مرضی پر ہے۔ کہیں آلو 80 روپے کا کہیں 70 اور کہیں 60 کا۔ پیاز کا معاملہ بھی یہی ہے اور ٹماٹر کا بھی، گوشت کی قیمتیں کیوں بڑھ گئیں، کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن اچانک بڑھ گئی ہیں۔ حکومتی ادارے صرف دودھ فروشوں کے خلاف کارووائی کرتے ہیں۔ نیچے سے اوپر تک نظام بگڑا ہوا ہے، حکمرانوں کو چند لوگوں کے احتساب سے فرصت نہیں۔