ہاشمی صاحب ایسے بھی تھے

441

کافی کچھ لکھنے کے باوجود مزید باتیں یاد آگئیں سو وہ بھی لکھ دیں۔ ہاشمی صاحب ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے معتقد تھے۔ اپنے فالج کے حملے کے سوا ڈاکٹروں کے پاس جانے سے گریز ہی کیا۔ جب بھی گئے پکڑ کر لے جائے گئے۔ دو تین برس قبل ڈینگی کا حملہ ہوا تھا تو ہومیو پیتھک پر زیادہ انحصار کیا اور احتیاط و دیسی نسخے استعمال کیے۔ الحمدللہ صحتیاب ہو کر آئے۔ اس معاملے میں بھی ہماری ان کی بنتی تھی ہمارے والد صاحب ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے اور ہم بھی 1996ء تک ایلوپیتھک دوائوں سے ناواقف تھے۔ ہاشمی صاحب اکثر کسی کا مرض سن کر دوا تجویز کرتے اور وہ وہی دوا ہوتی جو ہمارے والد بتا چکے تھے۔ بہت سے مواقع پر ہمیں نت نئے نام ان ہی سے سننے کو ملے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے بتاتے پھر ایک دو دن بعد وہ دوا لے کر بھی آجاتے تھے۔ اسی ہومیوپیتھک کی وجہ سے تحریک ابن آدم کے ڈاکٹر شجاع سے بھی دوستی تھی ایک دن انہوں نے شورش کاشمیری پر تقریب میں شرکت اور خطاب کا کہا۔ ہم نے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ بھائی اطہر ہاشمی صاحب کو بلوالو وہی جانتے بھی ہوں گے اور ان پر گفتگو ہمارا منصب نہیں۔ ڈاکٹر شجاع نے کہا تو پھر کم از کم ان تک اس پروگرام کی تفصیل پہنچادیں میں بات کرلوں گا۔ ہاشمی صاحب تقریب میں پہنچے اور خطاب کیا اور وہاں جب ڈاکٹر شجاع سے پتا چلا کہ شورش پر بات کرنے کے لیے ان کا نام مظفر اعجاز نے دیا ہے تو ان کا تبصرہ (جو تحریر بھی کیا) یہ تھا کہ ’’تو مظفر نے مجھے پھنسایا ہے‘‘۔ تقریب سے واپسی پر کہا کہ ابے مجھے اتنا بڈھا سمجھتا ہے کہ میں شورش کاشمیری پر بات کروں۔ یہ تم مجھے پھنسا دیتے ہو ہر جگہ۔ میں نے کہا نہیں جناب کم از کم آغا شورش کے معاملے میں تو ہم کسی طور مقررین میں بھی مناسب نہیں تھے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں ہم ان کے ہم عصر نوجوانوں میں تو تھے اور پھر آغا شورش کاشمیری پر زبردست گفتگو کی۔ بعد میں ڈاکٹر شجاع نے بتایا کہ ہم تو خود دیر میں آئے تھے وہ تو بھلا ہو آغا مسعود کا کہ وہ انہیں چائے کے لیے لے کر بیٹھ گئے۔
ہاشمی صاحب صحافیوں پر بہت کام کرتے تھے لیکن ایک حد تک کام کے بعد وہ مایوس سے ہوگئے تھے بار بار توجہ دلانے کے باوجود بھی کوئی نہ سدھرے تو کیا کرتے کہ ہم تو سوچ رہے تھے کہ بڑے ہو کر سدھر جائو گے لیکن اب امکان نظر نہیں آتا۔ ہم پوچھتے کہ بڑے ہونے کا! تو ان کا جواب ہوتا تھا نہیں بھائی سدھرنے کا… اسی خیال سے وہ ساتھی رسالے سے وابستہ ہوگئے۔ ہوا یوں کہ ان کو ایک بچہ کوہستانی مل گیا جو اب رفتہ رفتہ مرد کوہستانی بنتا جارہا ہے۔ وہ ہاشمی صاحب کو ساتھی کی تقریب میں لے گیا۔ غلطیوں کی نشاندہی اور اصلاح کا کام ان سے لینے لگا اور ہاشمی صاحب مزے سے یہ کام کرتے۔ کہتے تھے بڑوں میں لکھنے کا جذبہ کم دیکھا ہے بچوں میں زیادہ ہے۔ دس بارہ سال میں ان میں سے کوئی اچھا صحافی نکلے گا۔ ہم کہتے کہ نکل کر کہیں اور چلا جائے گا تو ہاشمی صاحب کہتے… نہیں ادھر ہی آئے گا۔ اب ہاشمی صاحب تو ہیں نہیں یہ بچے کہاں جائیں گے۔ جسارت ہمیشہ سے صحافت کی نرسری رہا ہے اور ہاشمی صاحب صحافت کی یونیورسٹی۔ سند دونوں نہیں دیتے تھے کیونکہ نرسری کی سند نہیں ملتی اور ہاشمی صاحب جیسی یونیورسٹیاں ڈگریاں نہیں بانٹتیں خود ہمیں شاگرد کی سند 35 برس بعد ملی۔ ڈگری پر یاد آیا کہ ایک صاحب صلاح الدین صاحب کے زمانے سے جسارت کی انتظامیہ میں تھے بعد میں معظم علی قادری کے زمانے میں بھی رہے ان کو نت نئے مضامین میں ڈگری لینے کا شوق چرایا۔ ایک دفعہ آئے اور فخر سے بتایا ہاشمی صاحب میں نے ایل ایل بی کرلیا۔ پھر کبھی ایم اے صحافت کی اطلاع دی۔ غالباً ایل ایل ایم اور ایم اے اردو کی بھی سند لے لی۔ ایک دن ایسی ہی کسی سند کی خبر لے کر ہاشمی صاحب کے پاس آئے تو ہاشمی صاحب نے مبارکباد دی اور کہا کہ ڈگریاں تو بہت جمع کرلیں اب صلاحیت بھی پیدا کرلو۔ اگلی غلطی انہوں نے یہ کی کہ دوسرے احباب کو یہ تبصرہ سنادیا۔ یہ تبصرہ ان کے پیچھے لگا ہوا ہے اس کو کوئی 25 سال سے زیادہ تو ہوگئے ہیں۔ اطہر ہاشمی صاحب خود کئی مرتب سنا چکے ہیں اگر ہم نے کسی قسط میں ذکر کردیا ہو تو پھر پڑھ لیں کہ ایک مرتبہ خفیہ پولیس والے آئے اور کچھ معلومات طلب کیں۔ ہاشمی صاحب نے معذرت کرلی تو وہ تھوڑا سا بُرا مان گئے۔ اچھا آپ نہ بتانا چاہیں تو آپ کی مرضی… انداز ایسا ہی تھا کہ پھر ہماری مرضی چلے گی۔ تو ہاشمی صاحب نے پوچھ لیا… اچھا یہ بتائو وہاں سگریٹ تو ملے گی… کہنے لگے کہاں… ہاشمی صاحب نے کہا جہاں تم لوگوں کو لے جاتے ہو… یہ سن کر بے چاروں کو معذرت کرکے واپس جانا پڑا۔ سگریٹ کا حال یہ تھا کہ عیدالاضحیٰ کے چوتھے روز ان کے لیے سگریٹوں کے 10 پیکٹ آئے، لیکن وہ نہیں تھے۔ پھر اگلے دن بھی نہیں آئے اور اس کے اگلے دن سے تو اب تک نہیں آئے۔ سگریٹ لانے والے کو واپس کرنا پڑے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اتنی سگریٹ نوشی کے باوجود 73 برس جی لیے۔
چھ سال قبل جسارت سے سہ بارہ وابستگی (ملازمت) کے فوراً بعد ہم نے انٹرنیشنل صفحہ شروع کروایا تو ہاشمی صاحب نے کہا کہ انٹرنیشنل خبریں تو ویسے ہی لگادیا کرو پورے صفحے کی روزانہ کیا ضرورت… لیکن کچھ ہی دن میں وہ قائل ہوگئے اور اس قدر دلچسپی لی کہ یہ صفحہ وہی دیکھتے تھے۔ اس کی سرخیوں خبروں پر گہری توجہ رکھتے۔ جو ٹیم ہم نے پیش کی تھی اگرچہ وہ اپنے کام میں طاق ہے لیکن ہاشمی صاحب انہیں تاریخ کے اعتبار سے شہروں کے ناموں اور عربی کی اصطلاحات کے حوالے سے رہنمائی دیتے تھے۔ ساتھ ہی وہ رہنمائی لینے میں بھی کبھی نہیں شرماتے بلکہ کہتے کہ آپ درست کہہ رہے ہیں۔ اپنے پاس بلا کر خود ناموں اور شہروں کے بارے میں معلومات لیتے بھی تھے۔ اطہر ہاشمی صاحب جس طرح صحافیوں کی غلطیوں سے لطف لیتے وہیں دفتر کے ایک ملازم کے جملے کا لطف بھی لیا اور ہمیں بھی اس سے آگاہ کیا کیونکہ ہم سے متعلق تھا۔ ہاشمی صاحب کے جانے کا صحافیوں کو جو نقصان ہوا وہ تو ہوا لیکن غیر صحافی عملہ بھی نقصان میں آیا ہے۔ جن صاحب کا ذکر ہے وہ رات کو ہاشمی صاحب کو گھر تک چھوڑنے جاتے، دفتر کی گاڑی لے کر جاتے۔ ایک روز گاڑی بار بار بند ہورہی تھی اس نے ایک جگہ روکی، سیٹ اُٹھا کر معائنہ کیا اور پھر بتایا کہ صاحب ایڈیٹر کا ڈھکن خراب ہوگیا ہے۔ ہاشمی صاحب نے پھر پوچھا… کہ ایڈیٹر کا ڈھکن؟ تو اس نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ہر گاڑی میں ایڈیٹر ہوتا ہے اس کا ڈھکن خراب ہے۔ اگلے روز ہاشمی صاحب نے دفتر آتے ہی ہم سے پوچھا کہ ارے سنا ہے تمہارا ڈھکن خراب ہوگیا ہے۔ ہم نے پوچھا کیا مطلب۔ کہنے لگے کہ بھائی وہ جو نوجوان مجھے چھوڑنے رات کو گاڑی لے کر جاتا ہے اس نے بتایا ہے کہ ایڈیٹر کا ڈھکن خراب ہے۔ اتنے میں وہ آگیا ہم نے استفسار کیا تو اس نے کہا کہ صاحب ریڈیٹر کا ڈھکن لوز تھا اس کی وجہ سے گیس نکل رہی تھی وہ میں نے ٹائٹ کردیا۔ اس پر ہم نے پھر پوچھا ریڈیٹر کا ڈھکن تو اس نے کہا کہ ریڈیٹر کا۔ جی ہر گاڑی میں ریڈیٹر ہوتا ہے۔ اس کے الفاظ کی ادائیگی سے وہ لفظ ایڈیٹر ہی لگ رہا تھا لیکن ہاشمی صاحب نے نہیں مانا اور کہا کہ یہ ایڈیٹر ہی کہہ رہا ہے۔ اب ہم کی کہہ سکتے تھے ہاشمی صاحب کے آگے پیش نہیں چلتی تھی۔