کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) جمعیت الفلاح کراچی کے زیر اہتمام ملک کے ممتاز دانشور،اْردو زبان و ادب کے معروف استاد،مدیر اعلیٰ روز نامہ جسارت سید اطہر علی ہاشمی مرحوم کی یاد میں تعزیتی اجلاس منگل کے روز جمعیت الفلاح ہال میں منعقد ہوا،جس میں محبان اطہر ہاشمی مرحوم،احباب اور صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی،شرکاء نے سینئر صحافی سید اطہر علی ہاشمی کی صحافتی خدمات کوسر اہا اور انہیں خراج عقید ت پیش کیا،اجلاس کی صدارت نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ قحط ریجال کے اس دور میں وہ ایک عظیم انسان تھے اطہر ہاشمی ایک استاد، دانشور، صحافی اورادیب تھے۔اطہر ہاشمی کی صحافت بے باک صحافت تھی وہ دلوں پر راج کرنے والے عظیم صحافی تھے۔وہ اپنی بات اچھے پہرائے میں دوسروں تک پہچانے والے عظیم صحافی تھے۔انہوں نے کہا کہ اطہر علی ہاشمی کوچہ صحافت سے خود تو چلے گئے لیکن ناجانے کتنے صحافیوں کو سیکھا کر کے ان کو زندہ چھوڑ گئے ہیں۔ایسے استاد وصحافی جو اپنا کام چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔کوچہ صحافت اردو زبان کے اپنے بہت بڑے استاد اور خادم سے محروم ہو گیا ہے۔
روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر مظفر اعجاز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا اور اطہر ہاشمی کا 37 برس کا ساتھ رہا ہے سن2001ء کے بعد جو وقت ہاشمی کے ساتھ گزارا ہے وہ یاد گار تھا۔وہ بہت اچھا لکھنے اور بولنے والے صحافی کے ساتھ ساتھ بہت عظیم انسان تھے۔ان کو میں نے کبھی غصے میں نہیں دیکھا آج ان کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔اطہر ہاشمی کے لیے 1 گھنٹہ یا پورے دن گفتگو کرے تو وہ بھی کم ہوگا۔انہوں نے اردو لکھنے بولنے کی درستگی کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس دنیا سے بڑے بڑے ہیرے چلے گئے ان میں اطہر ہاشمی تھے وہ بھی چلے گئے میں انہیں صحافت کے استاد، دانشور اور ادیب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جسارت کے سابق منتظم اعلیٰ سید کمال احمد فاروقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اطہر علی ہاشمی نے جسارت اور صحافت کو ایک مشن کے طور پر اپنایا ہے۔جسارت صحافیوں کی نرسری نہیں ہے بلکہ یہ ایک یونیورسٹی ہے جہاں سے لوگ سیکھ کر فارغ ہوتے ہیں اور دنیا صحافت میں اپنا مقام بناتے ہیں۔
جسارت کے آن،بان،شان اطہر علی ہاشمی تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں استادوں اور مربین کو یاد رکھنا چاہیے ہم اپنے محسنین اور خدمت گزار وں کو بھول چکے ہیں ہمیں اطہر علی ہاشمی کی تحریریں کو دوبارہ سے شائع کرنا چاہیے تاکہ آج کے صحافی ان کی تحریروں سے کچھ سیکھ سکے۔
انہوں نے کہا کہ اطہر علی ہاشمی نے اردو زبان کی درستگی کے لیے بڑا کام کیا ہے انہیں اردو زبان وکلام کی بڑی فکر رہتی تھی۔اردو کے الفاظ غلط لکھنے پر بہت ناراض ہو جاتے تھے لیکن تصیح اور اصلاح مذاق کے انداز میں کرتے تھے۔
روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر مقصود یوسفی نے تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جسارت میں باحیثیت رپورٹر اپنے فرائض انجام دیے اور میں نے اطہر علی ہاشمی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔باحیثیت صحافی ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے انہیں صحافت کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ صحافیوں کے استاد تھے اور ہمیشہ اردو کی بہتری کے لیے کوشاں رہے ہیں آج صحافت اردو زبان کے ایک عظیم استاد سے محروم ہو گئی ہے۔
ہمیشہ انہوں نے اچھے کاموں کی ترغیب دی ہے۔گھر کے کسی بھی معمالے پر والد محترم سے مدد حاصل کرتے تھے ابو نے زندگی بھر ہمیں سیکھانے کا سلسلہ جاری رکھا،ابو کے اعصاب بہت مظبوط تھے کبھی انہیں کسی بات پر شکایت کرتے نہیں دیکھا ہے انہیں ہمیشہ خوش مزاج اور دوسروں کے کام آتے دیکھا ہے۔
تعزیتی اجلاس سے جمعیت الفلاح کے نائب صدر جہانگیر خان نے کہا کہ اطہر علی ہاشمی صحافت میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے ان جیسے افراد دنیا میں کم پیدا ہوتے ہیں۔انہوں نے شعبہ ادب اور اردو زبان کے لیے بڑا کام کیا ہے۔