سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اے پی سی میں کہی جانے والی اپنی بات کو ایک بار پھر نئے انداز سے کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کوئی اور چلا رہا ہے ہم آزاد نہیں آزاد نہیں۔ انہوں نے تین مرتبہ وزیراعظم اور ایک مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب رہنے اور تقریباً 37 برس کی سیاست کے بعد اعلان کیا ہے کہ اب عزت کی زندگی جینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہمارے جذبے مزید بڑھیں گے۔ نواز شریف نے شکوہ کیا کہ باہر کے لوگ آئے دن نئے ایجنڈے اور بلوں پر ووٹ ڈالنے کی ہدایات دیتے ہیں۔ اب اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غلام ہیں۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ عمران خان کو حکومت میں لانے والے بھی پشیمان ہیں۔ عدالتوں سے مرضی کے فیصلے لیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد پر بھی زور دیا ہے۔ میاں نواز شریف ان حکمرانوں میں سے ہیں جن کی غلطیوں پر الزام لگا کر عمران خان نے سیاست کی اور ان ہی راستوں پر چلتے ہوئے اور طریقوں پر عمل کرتے ہوئے ایوان اقتدار تک پہنچے۔ دوسرے حکمران پیپلز پارٹی والے ہیں۔ عمران خان کی باتیں بہت درست تھیں۔ ان دو پارٹیوں نے ملک کو خرابیوں کی انتہا تک پہنچا دیا تھا یہی وجہ تھی کہ لوگوں کی ہمدردیاں عمران خان کے ساتھ ہو رہی تھیں۔ باقی کام سلیکٹرز نے کیا۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کوئی اور چلا رہا ہے۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ ان کے ادوار حکومت اور بے نظیر کے ادوار میں یا آصف زرداری کی صدارت اور پی پی کی حکومت میں پارلیمنٹ کون چلا رہا تھا کیا مسلم لیگ ن ہی پارلیمنٹ چلاتی تھی۔ بجٹ تک اس وقت بھی باہر سے بن کر آتے تھے، آج بھی ایسا ہی ہے بلکہ بجٹ بنانے والا ہی کابینہ کا حصہ بن گیا تو باہر سے بجٹ آنے کی ضرورت نہیں رہی۔ باہر کا ایجنڈا لانے کی ضرورت اب نہیں رہی۔ لیکن میاں صاحب اور پیپلز پارٹی کو یاد ہوگا کہ ریمنڈ ڈیوس ہو یا ایمل کاسی یا عافیہ صدیقی یہ سب لوگ غیر ملکی ہدایات اور مداخلت کے نتیجے میں ہی ملک سے گئے۔ میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کسی اور کے چلانے کی بات کی کی ہے ایسا ہی لگ بھی رہا ہے کہ پارلیمنٹ کوئی اور چلا رہا ہے۔ خاص موقع پر ارکان پارلیمنٹ کی خاص تعداد کا غائب ہونا، کسی کا عین وقت پر واک آئوٹ اور کسی کا جمہوریت کے بہترین مفاد میں حکومت کا ساتھ دینا، یہ سب بتاتا ہے کہ سب کو ہدایات ایک ہی جگہ سے مل رہی ہیں۔ لیکن میاں صاحب نے جو سب سے بڑی بات کی ہے وہ یہ ہے کہ عزت کی زندگی جینے کا فیصلہ کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ اب تک بے عزتی کی زندگی کیوں جی رہے تھے۔ پاکستانی قوم کو دنیا میں بے عزت اور بے توقیر کرانے کے بعد عزت کی زندگی جینے کا فیصلہ کیا معنی رکھتا ہے اور عزت کی زندگی لندن ہی میں کیوں جی رہے ہیں۔ پاکستان آئیں مقدمات کا سامنا کریں اندر یا باہر عدالت سے بریت یا سزا ہر حال میں عزت کی زندگی جییں گے۔ میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ ملک سے باہر بیٹھ کر چار تقریریں کرنا عزت کی زندگی ہے تو وہ غلط سوچ رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود 22 کروڑ عوام پانی، بجلی، گیس، روزگار، امن و انصاف سے محروم ہونے کے باوجود عزت کی زندگی جی رہے ہیں جو لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ اسی ملک کی دولت لوٹ کر اسی ملک میں محل بناتے ہیں، بیرون ملک جائدادیں بناتے ہیں اور عزت دار کہلاتے ہیں۔ وہ عزت کی زندگی نہیں جی رہے بلکہ ان کی طاقت اقتدار اور طاقت کے مراکز کی چھتری ان کی عزت کرواتی ہے اور انہیں با عزت شہری قرار دینے پر زور دیا جاتا ہے۔ میان نواز شریف کے بارے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ حکومت اور عدالت دونوں کو دھوکا دے کر لندن گئے ہیں۔ وہ اندازہ لگائیں کہ ان کے بارے میں عدلیہ کے خیالات کیا ہیں۔ میاں نواز شریف کے اے پی سی سے خطاب اور اب سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب نے اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان تنائو میں اضافہ ہی کیا ہے۔ ٹی وی چینلز کو بھی ایک جھنجھنا مل گیا ہے۔ بحثیں یہ ہو رہی ہیں کہ نواز شریف کی ملک کے باہر سے سیاست سے مسلم لیگ کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان۔ اتفاق ہے کہ ترجمانوں نے اکثر اپنے اداروں کو بدنام کیا یا ان کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔ اس مرتبہ بھی ترجمان کی وجہ سے کئی روز ادارے موضوع گفتگو رہے یہاں تک کہ اپوزیشن کی جانب سے ترش زبان بھی اختیار کی گئی۔ مسلم لیگ کو فائدہ ہوا یا نقصان اصل مسئلہ یہ ہے کہ سارا نقصان پاکستان کے اہم اداروں کو ہو رہا ہے۔ پارٹیاں تو آج کسی کے ساتھ اور کل کسی کے ساتھ ہوتی ہیں۔پی پی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے دشمن رہے لیکن آج کل ایک ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی میں ان دونوں پارٹیوں کے اہم لوگ ہیں جن کو پی ٹی آئی سربراہ خراب کہتے ہیں۔ عزت کی زندگی جینے کے لیے ان سیاسی رہنمائوں کو ایسے کام کرنے ہوں گے جو ان کو عزت اور وقار کے قابل بناتے۔ ان کی وجہ سے سیاست بدنام ہے ان کی وجہ سے ملک تباہی سے دوچار ہے اور یہ عزت کی زندگی جینے چلے ہیں۔