شکریہ!! جنابِ اردوان

362

ترک صدر رجب طیب اردوان ایک بار پھر کشمیری اور فلسطینی عوام کے سب سے قدآور وکیل اور ان کے حق کے موثر موید بن کر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے اپنے ریکارڈڈ خطاب میں مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا کے امن واستحکام کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ اب بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد صورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ طیب اردوان کے اس جرأت مندانہ پیرایہ اظہار پر جہاں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا ہے وہیں حسب توقع بھارت کی چیخیں دور دور تک سنائی دیں۔ اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس پریمورتی نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے بارے میں ہم نے ترک صدر کا بیان پڑھا یہ انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اور یہ انڈیا کے لیے مکمل طور پر ناقابل قبول ہے ترکی کو کسی دوسرے ملک کی خودمختاری کا احترام سیکھنا چاہیے۔ ترک صدر نے گزشتہ برس بھی پوری جرأت کے ساتھ جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر اُٹھایا تھا بلکہ ترکی پاکستان اور ملائیشیا تین ہی ممالک تھے جنہوں نے بہت کھل کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کی مخالفت کی تھی۔ یہاں تک کہ طیب اردوان کے اس خطاب کے بعد بھارت نے ترکی کے ساتھ جہازوں کا سودا منسوخ کیا تھا بلکہ مودی نے اپنا ترکی کا دورہ بھی منسوخ کر دیا تھا۔
ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر بھی ترکی پاکستان کی مسلسل حمایت کرتا چلتا آرہا ہے۔ کشمیر اور ایف اے ٹی ایف پر ترکی کا کردار بھارت کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں۔ ترک صدر نے رواں سال کے اوائل میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر ترکی کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جنتا کہ پاکستان کے لیے ہے۔ طیب اردوان اس وقت عالم اسلام کے سب سے نمایاں اور حقیقی قائد بن کر اُبھرے ہیں۔ انہوں نے کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا کے تمام مظلوم مسلمانوں کے حق میں نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی طور پر بھی ان کی مدد کی کوشش کی۔ شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھولنا اور شہریت دینا، حماس کے نمائندوں اور لٹے پٹے فلسطینیوں کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کرنا مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے بدلے اپنا معاشی نقصان برداشت کرنا طیب اردوان کے مسلمانوں کے قائد ہونے کا ثبوت ہے۔ فلسطین کے دو آزادی پسند گروپوں حماس اور الفتح نے طیب اردوان سے اپنے داخلی اختلافات ختم کرانے کے لیے کردار کی اپیل کی۔ طیب اردوان نے ان دونوں تنظیموں کے درمیان کامیاب مصالحت کرائی اور اب غزہ اور رم اللہ میں منقسم یہ دونوں تنظیمیں اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں انتخابات کے فارمولے پر متفق ہوگئیں۔ یوں فلسطینی عوام کی اجتماعی طاقت بکھرنے کے بجائے دوبارہ یکجا ہونے کے آثار پیدا ہوگئے ہیں۔
مسلمان دنیا اس وقت دو بلاکوں میں تقسیم دکھائی دے رہی اور اس تقسیم کی بنیاد اسرائیل ہے۔ مسلمانوں میں ایک گروپ ’’فرینڈز آف اسرائیل‘‘ کی صورت اُبھر رہا ہے اس میں بیش تر عرب ممالک شامل ہیں۔ کچھ اسرائیل کو برسوں پہلے تسلیم کر چکے ہیں کچھ تسلیم کررہے ہیں اور کچھ اس جانب دانستہ طور پر رینگ رہے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کو خدا حافظ کہنے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔ جونہی کوئی عرب ملک اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھاتا ہے فلسطین غم واندوہ میں ڈوب جاتا ہے۔ ان کے گھر ماتم کدے بن جاتے ہیں اور وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے سڑکوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ سرمائے اور تجارت کے آگے سجدہ ریز گروہ ہے مگر اپنے فیصلوں کے اسٹرٹیجک نقصانات سے بے خبر ہے۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں فلسطینی عوام حقیقت میں اسرائیل کے سامنے کھڑے ہو کر ہیومن شیلڈ کا کردار ادا کرتے رہے۔ یہ حصار گر گیا تو اسرائیل عربوں سے دست درازی کرے گا۔ اس کے باجود مسلمانوں کا ایک گروپ سود وزیاں کی پروا کیے بغیر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے جس میں ترکی، پاکستان، ایران، قطر اور کچھ دوسرے ملک شامل ہیں۔ یہی تقسیم فلسطین سے ہوتی ہوئی کشمیر تک جا پہنچتی ہے۔ فرینڈز آف اسرائیل کشمیر میں ’’فرینڈز آف انڈیا‘‘ بن کر سامنے آرہے ہیں۔ انہیں بھارت کی چیرہ دستیوں سے نہیں اس کے ساتھ تجارت سے دلچسپی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ان کے لیے امریکا کا حکم ہے جس سے وہ سرتابی نہیں کرسکتے۔ مسلمان ملکوں کا جو گروہ اسرائیل کا حامی ہے وہ بھارت کا ہمدرد بھی ہے اور جو گروپ فلسطینیوں کا حامی ہے وہی ایک اصول کی بنیاد پر کشمیریوں کا حامی بھی ہے۔ اس طرح کشمیر اور فلسطین کا مقدر ہمیشہ کی طرح یہاں بھی ایک جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔