’’حقوق کراچی مارچ‘‘ سے لسانی سیاست کی تدفین ہوگئی

313

کراچی کے لوگ آئندہ ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں گے کہ 27 ستمبر 2020 وہ دن تھا جب کراچی میں لسانی سیاست کو دفن کرنے کا اعلان کراچی کے سیاست دان و جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کیا تھا۔ یہ اعلان انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کے زیر اہتمام شارع قائدین پر حقوق کراچی مارچ کے اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ’’حق دو کراچی کو‘‘ کے عنوان سے کراچی کے مسائل کے سدباب اور دیگر حقوق کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان خصوصاً کراچی کی جانب سے کی جانے والی مسلسل جدوجہد قابل تعریف ہونے کے ساتھ مثالی بھی ہے۔
یہ بات کراچی سمیت پورے ملک کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں متحدہ قومی موومنٹ جو پہلے مہاجر قومی موومنٹ کہلاتی تھی کراچی کے لوگوں کو جن مسائل کا سامنا رہا ان کے سدباب کے نام پر مسلسل 32 سال تک اپنی لسانی سیاست میں قائد اعظم محمد علی جناح کے عظیم شہر کراچی کو جکڑا ہوا تھا۔ اس دوران شہریوں کے مسائل حل ہونا تو دور کی بات رہی تاہم نئے تکلیف دہ مسائل نے جنم لیا جن میں سب سے بڑا مسئلہ شہر کے امن و امان کا رہا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے اس لسانی سیاست کے دور میں مسائل حل ہونا تھے نہ حل ہوئے جب کہ پورا کراچی مقتل بنا رہا۔ یہ وہ دن تھے جب حقوق دلانے کا وعدہ کرکے روزانہ درجنوں افراد کو قتل کر دیا جاتا تھا اس قتل و غارت سے قبل لندن میں بیٹھے ایک نام نہاد قائد کی مکروہ آواز سنائی دیتی تھی اور شہر میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ مگر جماعت اسلامی کراچی کے لوگ اس وقت بھی کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی آواز اْٹھاتے تھے۔ ان دنوں جماعت اسلامی لسانی جماعت کی قتل و غارت کے خلاف پرامن احتجاج کرتی رہی مگر کبھی بھی اپنے سامنے موجود لسانی جماعت کی طرح لاشوں پر سیاست نہیں کی۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اس خونیں ماحول کے دوران بھی جماعت اسلامی اور اس کے کارکن امن و امان بہتر بنانے اور شہر کو حقوق دلانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ حالانکہ جماعت اسلامی پر امن کارکنوں کو بھی لسانی جماعت کے غنڈے اپنا ہدف بنایا کرتے تھے۔ اس دور میں ایک جماعت اسلامی ہی تھی جس کے رہنماؤں اور کارکنوں سے لوگوں کو توقع تھی کہ یہ ہی اس شہر کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے اور الحمدللہ جماعت اسلامی کو امن و امان بحال کرنے کی اس مہم میں خاطرخواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے امن و امان کے حوالے سے جس مقدمے کی سماعت کی جس میں جماعت اسلامی کو کلین چٹ دی جبکہ ایم کیو ایم سمیت 3 بڑی جماعتوں کو امن و امان کی خراب صورتحال کا ذمے دار ٹھیرایا تھا۔ دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ حقوق دلانے کے نام پر قتل و غارت کرتی رہی اور اپنے اسی تسلسل کے دوران وہ ٹوٹ کر بکھر گئی۔ جماعت اسلامی کیونکہ نیک نیتی اور اللہ کی رضا کے لیے کراچی کے امن و امان کے لیے جدوجہد کر رہی تھی اسی وجہ سے اللہ نے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا اپنی اس کامیابی سے جماعت اسلامی نے کراچی کو دوبارہ امن و امان کا گہوارہ بنایا ساتھ ہی امن و امان کا بڑا مسئلہ کراچی کے بجلی پانی سیوریج اور دیگر بنیادی مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانی شروع کی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غلط مردم شماری سے پیدا ہونے والے مسائل پر آواز بلند کی۔ جماعت اسلامی یہ سمجھتی ہے کہ کراچی کے مسائل حل نہ ہونے کی اہم وجوہات میں 2017 کی مردم شماری میں کراچی کے انسانوں کی تعداد کو درست نہ گننا شامل ہے، اس لیے جماعت اسلامی کا یہ بھی بڑا مطالبہ ہے کہ مردم شماری کو درست کیا جائے تاکہ 3 کروڑ کی آبادی کے شہر کے مسائل تیزی سے حل کیے جا سکے۔
جماعت اسلامی کے اس سمیت دیگر مطالبات کی حمایت کے لیے ہونے والے ’’حقوق کراچی مارچ‘‘ میں تمام قوموں کی نمائندگی موجود تھی اس اجتماع میں کوئی پنجابی، پٹھان، بلوچ، سندھی کی حیثیت سے شریک نہیں تھے بلکہ سب کراچی کے حقوق کی جدوجہد کے لیے حقوق مارچ کا حصہ بنے ہوئے تھے جو اس بات کی دلیل تھا کہ یہ اجتماع مکمل لسانیت کے پرچار سے پاک تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے واشگاف الفاظ میں اس امر کا اظہار کیا کہ یہ اجتماع اس بات کا بھی اظہار کر رہا کہ آج کراچی میں لسانی سیاست دفن ہو گئی ہے یہ کراچی سب کا ہے۔
کراچی میں رہنے والے تمام ہی قوموں کے لوگ پر امن ہیں اور سب ہی یہاں کے حقوق کی تکمیل چاہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک کراچی میں رہنے والے تمام ہی لوگ اسے اپنا شہر اور ملک کا بڑا شہر مان کر اسے حق دلانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے اس وقت تک اس کے حقوق بھی نہیں مل سکے گے۔