بڑے بھائی مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں انہوں نے لندن میں بیٹھ کر ملک کے سب سے مضبوط اور طاقتور ادارے کو للکارا ہے اور اسے خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور سیاست میں دخل اندازی نہ کرے۔ جب کہ چھوٹے بھائی مزاحمت کے بجائے مفاہمت کو کلیدِ کامیابی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے چند روز قبل بھائی جان کی تقریر کے منفی اثرات کو بیلنس کرنے کے لیے ایک پریس بریفنگ میں یہ موقف اختیار کیا کہ میاں نواز شریف کی تقریر میں محض حقائق کا اظہار تھا اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مقصد نہ تھا۔ جہاں تک خود ان کا تعلق ہے تو وہ طاقتور ادارے کے ساتھ مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ گزشتہ 25 سال سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف اپنی اس حکمت عملی کے نتیجے میں کب کے وزیراعظم بن چکے ہوتے لیکن ان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے میں بڑے بھائی کا بہت عمل دخل ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کا چھوٹا بھائی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو۔ وہ اس منصب کے لیے شریف فیملی میں صرف اپنے آپ ہی کو موزوں سمجھتے ہیں۔ وہ تین مرتبہ اس منصب کا لطف اُٹھا چکے ہیں اور تینوں مرتبہ تمام اختیارات اپنی ذات میں سمیٹنے کی کوشش انہیں بہت مہنگی پڑی ہے۔ اب اگرچہ عدالت نے انہیں ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے لیکن وہ اب بھی اپنی خواہش سے باز نہیں آئے۔ وہ جانتے ہیں کہ تاحیات نااہل ہونے کے سبب وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے، جلسے جلوس کی قیادت نہیں کرسکتے، پاکستان واپس آئیں تو ان کی جگہ جیل کے سوا اور کہیں نہیں ہے۔ پاکستان سے باہر رہ کر وہ جو بھی سیاست کریں گے اس کا اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی اس سے ملک میں سیاسی بیداری پیدا ہوگی۔ ایسے میں چھوٹے بھائی کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ ہمیں مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی راہ اپنانی چاہیے۔ مزاحمت آخر کس کی؟ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ سیاست میں دخل اندازی کا راستہ فوج کو خود سیاستدانوں نے دکھایا ہے اور اس کی شروعات قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی ہوگئی تھی۔ جنرل ایوب خان پاک فوج کے پہلے سربراہ تھے جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیاسی حکومت نے انہیں اپنا وزیر دفاع بھی بنادیا تھا۔ وہ فوجی وردی میں ملبوس کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے اور اپنی رائے منواتے تھے۔ اس طرح ان کے اندر چھپا ہوا سیاستدان کھل کر منظر عام پر آگیا اور انہوں نے بندوق کی نوک پر اقتدار اپنے قبضے میں لے لیا۔
جنرل ایوب خان نے اپنے طویل دور اقتدار میں فوجی وردی اُتاردی، ملک میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کیا اور 1962ء میں ایک صدارتی طرز کا آئین مسلط کرکے اس کے تحت ملک کے سول صدر بن بیٹھے لیکن عوام انہیں تادیر برداشت نہ کرسکے اور جب ملک کے در و دیوار ان کے خلاف نعروں سے گونجنے لگے تو وہ اقتدار کی منتقلی کے لیے آئینی راستہ اختیار کرنے کے بجائے فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سپرد کرکے سبکدوش ہوگئے۔ اس جرنیل نے ملک کا جو حشر کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس نے 1970ء میں عام انتخابات کرائے لیکن یہی انتخابات ملک کو دولخت کرنے کا سبب بن گئے کیوں کہ اس کے نتائج کو مقتدرہ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور فوجی ایکشن کے ذریعے اِن انتخابی نتائج کو ریورس کرنے کی کوشش کی تھی۔ ظاہر ہے یہ کوشش کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے نتیجے میں بہت خونریزی ہوئی۔ پڑوسی ملک بھارت کو جو پسِ پردہ اس آگ کو ہوا دے رہا تھا براہِ راست فوجی مداخلت کا موقع ملا اور اس نے پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا، جن بنگالی عناصر نے مشرقی پاکستان کی حیثیت برقرار رکھنے اور اسے پاکستان سے جوڑے رکھنے کی کوشش کی تھی وہ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی قید و بند اور پھانسیوں کی صورت میں اس کی سزا بھگت رہے ہیں اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں کوئی ان کے حق میں آواز بلند کرنے والا نہیں ہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان سے نہ فوج نے کوئی سبق سیکھا نہ سیاستدانوں نے کوئی عبرت حاصل کی۔ باقی ماندہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے حصے میں آگیا۔ یہی ان کی خواہش بھی تھی۔ انہوں نے انتخابات کے فوراً بعد ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنے عزائم ظاہر کردیے تھے۔ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے اکثریتی پارٹی کو پُرامن انتقال کی ساری کوششیں ناکام بنادیں اور وہ المیہ رونما ہوا جسے کوئی بھی محب وطن پاکستانی نہیں بھلا سکتا۔ اس سے بھی بڑھ کر ستم انہوں نے یہ کیا کہ جب بچے کھچے پاکستان کا اقتدار ان کے ہاتھ آیا تو انہوں نے یہاں عوام کی نمائندہ حکومت قائم کرنے کے بجائے اپنی آمریت قائم کرلی اور تمام جمہوری قدروں کو اپنے پائوں تلے روند ڈالا۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں اور ان کے رہنمائوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا اور جبر و تشدد کے وہ تمام حربے آزمائے جو کسی بدترین فسطائی حکومت ہی میں روا ہوسکتے تھے۔ بالآخر فوج نے انہیں معزول کرکے اقتدار سنبھال لیا۔ بھٹو ایک ذہین سیاستدان تھے، سیاسی حرکیات کو بھی سمجھتے تھے لیکن ان کی ساری ذہانت و فسطائت جمہوری نظام کو ناکام بنانے میں صرف ہوئی اور اس کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں برآمد ہوا۔ جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے بعد ملک میں سول حکومتیں بھی آئیں لیکن درپردہ اقتدار کی کشمکش نے انہیں زیادہ دیر چلنے نہ دیا۔ آخر میاں نواز شریف انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے برسراقتدار آئے تو ان پر تمام اختیارات اپنی ذات میں سمیٹنے کا جنون سوار ہوگیا اور اسی جنون میں انہوں نے آرمی چیف کے خلاف وہ ایڈونچر کیا جس کی سزا انہیں اقتدار سے معزولی اور جلاوطنی کی صورت میں بھگتنا پڑی۔ میاں صاحب دس سالہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آئے تو جس فوجی حکومت کو وہ اپنا ’’جانشین‘‘ بنا گئے تھے وہ بھی اپنے انجام سے دوچار ہوچکی تھی۔ بے نظیر بھٹو قاتلانہ حملے میں ماری گئی تھیں۔ نئے انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی کو ہمدردی کے ووٹ ملے اور وہ برسراقتدار آگئی۔ آصف علی زرداری نے وزیراعظم بننے کے بجائے ملک کا صدر بننے کو ترجیح دی اور ایوان صدر سے پانچ سال تک پاکستان پر حکومت کرتے رہے۔ بظاہر ملک میں جمہوری پارلیمانی نظام تھا، وزیراعظم تھا اور وفاقی کابینہ بھی تھی لیکن صدر نے پارلیمنٹ سمیت پوری حکومت کو ہائی جیک کر رکھا تھا اور ہر طرف صدر کا ڈنکا بج رہا تھا۔
خدا خدا کرکے پیپلز پارٹی کی مدت پوری ہوئی اور نئے انتخابات ہوئے تو میاں نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بن بیٹھے۔ اب کی دفعہ ان کے اور چھور ہی نرالے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کا مینڈیٹ لے کر برسراقتدار آئے ہیں۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور اپنے کاروباری بھارتی دوستوں کے ساتھ پینگیں بڑھانے میں ساری حدیں پار کرلیں، اگر قدرت کا دستِ غیب پاناما لیکس کے پردے میں ان کی باگیں نہ کھینچتا تو وہ پاکستان کو بھارت کا طفیلی ملک بنا کر دم لیتے۔ میاں نواز شریف اقتدار سے محرومی کے بعد ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگارہے ہیں اور فوج کو مورد الزام ٹھیرا رہے ہیں۔ انہوں نے ملکی امور میں مفاہمت کے بجائے مزاحمت کو اپنی پالیسی بنایا ہے۔ لیکن ان سے بلکہ سب سیاستدانوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کب ووٹ کو عزت دی ہے، کب اپنی جماعتوں میں موجود موروثیت کا خاتمہ کیا ہے، کب انہوں نے اپنے لیڈروں کی آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کی پاسداری کی ہے۔ بلاشبہ فوج کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے لیکن اس کا موقع تو خود سیاستدان اسے فراہم کرتے ہیں۔ سیاستدان پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں، اپنی جماعتوں کو جمہوری بنائیں، موروثیت کا خاتمہ کریں، اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات کریں اور ان کو عملی جامہ پہنائیں۔ صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آنے والی حکومت کو تسلیم کریں اور قومی مفاد میں اسے کام کرنے کا موقع دیں۔ ایسی صورت میں فوج کو سیاست میں مداخلت کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ اگر وہ دخل دے گی تو سیاستدانوں کا عدم تعاون اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردے گا لیکن یہ کام مزاحمت سے نہیں مفاہمت ہی سے ممکن ہے۔