سیاسی ہلچل

280

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی نئی کتاب سیاست میں نئی ہلچل کا سبب تو نہ بن سکی۔ مگر اپوزیشن کی اے پی سی نے سیاسی ہلچل مچا دی ہے۔ شیخ جی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جتنے چاہے اتحاد بنا لے۔ مگر وہ عمران خان کی حکومت کو نہیں گرا سکتی۔ حکومت ہر حال میں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی۔ ہم ابھی تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شیخ رشید کب تک پانچ سال کی رٹ لگائے رکھیں گے۔ حالانکہ وہ حکومت میں ہیں اور ان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ حکومت کی رٹ پر توجہ دیں۔ موصوف سے ریلوے سنبھالا نہیں جا رہا مگر دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے سے باز نہیں آتے۔
حالات اور قرائن بتار ہے ہیں کہ شیخ جی کی رٹ بھی پانچ سال پوری کرے گی۔ وطن عزیز کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی طرح تحریک انصاف بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔ کیونکہ عمران خان کی حکومت ایک طے شدہ منصوبے کے تحت برسر اقتدار آئی ہے۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے ڈیموکریٹک کے نام سے اتحادی جماعت بنا لی ہے۔ اور حکومت کو آنے والی جنوری تک کی مہلت دے دی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ عمران خان استعفا دیں گے نہ حکومت جائے گی، نہ لانگ مارچ ہو گا اور نہ ہی دھرنا دیا جائے گا۔ البتہ احتجاجی ریلیاں رنگ رلیاں مناتی رہیں گی۔ اگر جمہوریت میں احتجاج نہ ہو ریلیاں نہ نکالی جائیں تو جمہوریت کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
خدا خدا کر کے اپوزیشن نے اے پی سی بلا لی ہے اور حکومت کو مطالبات بھی پیش کر دیے ہیں۔ ان کے مطالبات پر ہر مکتبہ فکر کے مبصرین اور سیاسی دانشوروں میں اپنی اپنی سوچ کے مطابق تبصرے بھی کیے ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کو مزید وقت دیا گیا تو ملک و قوم کو نا قابل تلافی نقصان ہو گا۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو قوتیں عمران خان کو لائی ہیں انہوں نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کی ہے۔ اس لیے کسی بھی طرح کا احتجاج لاحاصل اور بے معنی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو بھی ہے۔ گویا اے پی سی کا انعقاد قومی مسئلہ نہیں سیاسی بقا کا معاملہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کچھ نہیں کر سکتی اور جہاں تک اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا تعلق ہے تو یہ تعلق سیاست دانوں کے منشورکا اٹوٹ حصہ ہے۔ کوئی بھی سیاست دان مستعفی ہو کر اپنی انوسٹمنٹ سے ہاتھ دھو نا پسند نہیں کر سکتا۔ یوں بھی الیکشن میں ہار جیت قسمت کی بات نہیں سرمائے کا تماشا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے اسمبلی سے استعفا دینے کے نتائج اور اس کے رد عمل پر غور وغوض کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام پر تبادلہ خیال کیا۔ مگر یہ گفتگو سیاسی حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے نہیں۔ بلکہ وقت گزاری کے لیے ہے۔ کیونکہ استعفا دینا بھی ان کے اختیار میں نہیں۔ ہم پہلے بھی کئی کالموں میں کہہ چکے ہیںکہ عمران خان کو یوسف رضا گیلانی تو بنایا جا سکتا ہے مگر تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اس کو ہر حال میں پانچ سال پورے کرنے ہیں۔ البتہ تحریک انصاف کا پانچواںسال ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن متحرک اور فعال ہو سکتی ہے۔ میاں نواز شریف کی اے پی سی کے اجلاس میں کی گئی تقریر سیاسی حالات کی بھر پور عکاس ہے۔ اگر انہوں نے سجا دکھا کر کھبا مارنے کی کوشش کی تو انہیں سیاسی موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
ٹیلی فونک رابطے کے ذریعے اے پی سی کے انعقاد کے بعد کی صورت حال پر گفتگو کی گئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اب حکومت کو مزید وقت دینا ملک و قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔ میاں نواز شریف نے اداروں کو تنقید کا ہدف بنایا ہے اور کہا کہ تحریک انصاف کا سونامی انہیں ڈبونے کے لایا گیا تھا۔ مگر مقتدر قوتوں کو یہ احساس نہیں تھا کہ سونامی آتا تو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ملک کے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو سزائیں دلوائی گئیں پھر بھی ان کی ’’انا‘‘ کو تسکین نہ ہوئی تو اشتہاری قرار دیا گیا۔ مگر اب ملک مزید کسی تماشے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو جانا ہی ہوگا۔ مگر حالات و واقعات بتا رہے ہیںکہ حکومت کے جانے کا کوئی امکان نہیں۔
مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اے پی سی کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا ہے۔ حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ اس نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے میاں شہباز شریف کو گرفتار کر لیا ہے۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو گرفتار کرو یا مریم نواز کو متحدہ جماعتوں کی تحریک کو روکا نہیں جا سکتا۔