کراچی کا حق دینا ہوگا

255

جماعت اسلامی کے حقوقِ کراچی مارچ کے دو دن بعد پیپلز پارٹی کے وزیر سعید غنی پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ ’’ہم کراچی کے وارث ہیں اور یہ شہر ہمارا تھا اور ہمارا رہے گا‘‘۔ ہمیں حیرت یہ ہے کہ انہوں نے اس انتہائی کامیاب مارچ کے بعد بجائے جماعت اسلامی کے پی ٹی آئی کو مخاطب کیوں کیا۔ وہ جو ایک محاورہ مشہور ہے نا کہ زمین کو مار کر زمین دار کو دھمکانا۔ سو یہ بیان بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ زمین کے مالک اور اُن کے نمائندے… سو ان کے بیان اور دعوے جن کو سمجھ میں آنے چاہییں ممکن ہے آجائے۔ لیکن کراچی کے لوگ ’’حق دو کراچی مارچ‘‘ میں جس طرح شریک ہوئے وہ اس بات کا اظہار تھا کہ وہ اب صرف اور صرف جماعت اسلامی پر اعتماد کرتے ہیں۔ بارشوں میں کراچی کے ہر علاقے کے لوگوں نے تباہی اور بربادی دیکھی، کچی بستیوں سے لے کر ڈیفنس تک کے مکین بے بسی کی تصویر بنے تھے۔ حلقوں کے نمائندے ہوں یا صوبائی اور قومی حکومت کے کرتا دھرتا سب ہی گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھے۔ مشیروں سے سندھ حکومت کے مزے لینے والی پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کے ساتھ منظر سے غائب تھی۔ دوسری طرف کراچی سے انتخاب جیتنے والے صدر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان بھی کراچی کے پریشان عوام کو شکل دکھانے نہ آئے۔اور نہ ہی پی ٹی آئی کے وہ چودہ پارلیمنٹ کے ارکان جو کراچی سے ووٹ لے کر جیتے تھے۔
کراچی پورے ملک کے بجٹ کا بچپن فی صد ادا کرتا ہے اور صوبائی حکومت سندھ کا تو تقریباً کل بجٹ ہی کراچی سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی کل بجٹ کا 95 فی صد حصہ کراچی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ آخر یہ دونوں کراچی کو نظر انداز کیوں کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ کراچی نے اپنے مسیحائوں کو پہچاننے میں غلطی کی۔ وہ جنہوں نے پچھلے 33 برس حق دلانے کے بہانے انہیں بیوقوف بنایا، مال و جان اور نسلوں کی تباہی کا تحفہ دیا اور عزت کی وہ شان جس سے پہچانے جاتے تھے مٹی میں ملادی۔ لنگڑا، کانا، ٹیڈی… یہ پہچان تو کراچی کی نہیں ہے۔
کراچی تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں تو بسوں کے ڈرائیور بھی خوش اخلاق اور خدا ترس ہوتے ہیں۔ ٹکٹ مقرر ہوتا حکومت کی طرف سے اور کنڈیکٹر لازمی مسافر کو ٹکٹ دیتے، یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا عمدہ نظام تھا، شہر کے ہر علاقے کو جانے والی بس ملتی
تھی۔ لیکن اب کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام سرے ہی سے کوئی نہیں۔ نجی طور پر چلائی جانے والی بسیں انتہائی بوسیدہ ہیں، ڈرائیور کسی اصول کے پابند نہیں، جب چاہیں جیسی چاہیں رفتار سے چلائیں اور جہاں چاہیں مسافروں کو اُتاریں۔ خواہ بیچ سڑک ہی پر اُتارنا پڑے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کے ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی فرسودہ ہے، خاص طور سے وہ شہر جو پورے ملک کے بجٹ کا آدھے سے زیادہ حصہ دیتا ہے۔ کراچی کے نوجوانوں کے لیے نوکریوں کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے اس کا کوٹا ہے۔ بھلا ریونیو دینے کا وقت آتا ہے تو کوٹا کہاں چلا جاتا ہے۔ تب کراچی کی آبادی کے لحاظ سے کوٹا مختص کردیا جائے۔ تب شاید آبادی کی گنتی بھی دوبارہ اور فوری کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ اور مان لیا جائے گا کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ ہوچکی ہے۔ لیکن یہ سب نہیں ماننا ہے کیوں کہ کراچی کے لوگ کوٹا سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یعنی میرٹ کی بنیاد پر ہر سطح پر نوکریاں بھی دی جائیں اور کالج اور یونیورسٹیوں میں داخلے بھی دیے جائیں۔ کراچی کے تین اہم مسائل بجلی، پانی اور کچرا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کو بجلی مہنگی کرنے اور من مانی قیمتیں مقرر کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے اور اُس کے لیے سارے حکمران اور سیاسی جماعتیں ’’کے الیکٹرک‘‘ کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ اس کی وجہ وہ بھاری انتخابی فنڈ ہے جو انہیں فراہم کیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC) بیچی اور کے الیکٹرک بنائی تو ان وعدوں کے ساتھ کہ کراچی میں بجلی کا انتظام بہترین ہوجائے گا۔ وہ بہترین تو چھوڑیں بہتر بھی نہ ہوا بلکہ کے الیکٹرک کے بھیس میں ایسا غنڈہ راج آگیا جس کا توڑ کسی سیاست دان کے پاس ہے نہ سیاسی جماعت کے پاس، کیوں کہ اس کے الیکٹرک کمپنی کے احسان تلے سب دبے ہیں اور دبے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ کے الیکٹرک جو کراچی سے سال کے سال دس دس ارب منافع کماتی ہے وہ کہتی ہے کہ کراچی والے بجلی چور ہیں اور یوں اپنے خسارے کا بوجھ قومی خزانے پر ڈالتی ہے۔ حکمران اس کی بات مانتے ہیں کہ انہیں منہ بند کرنے کے لیے فنڈز دیے جاتے ہیں لیکن سچ میں یہ فنڈ قومی خزانے ہی سے ادا ہوتے ہیں۔ مزید سچ میں تو عوام کی جیب سے ادا ہوتے ہیں۔ جو ایک طرف ٹیکس اور دوسری طرف بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کو بھگتے ہیں۔ ساتھ شاہ خرچ حکمرانوں کو بھی بھگتتے ہیں جن کے اقتدار سے الگ ہوتے ہی پتا چلتا ہے کہ وہ کتنے بڑے چور ڈاکو تھے۔ لیکن سزا اُسے تو بھول ہی جائیں۔