کراچی سے ٹرانسپورٹ بھی چھین لی

196

ابھی سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی کراچی یکجہتی ریلی کی دھول بیٹھی بھی نہ ہو گی اور ان نعروں کی گونج بھی ختم نہ ہوئی ہو گی کہ کراچی کی حق تلفی ہونے دینگے نہ سندھ کی تقسیم۔ کہ یہ خبر سامنے آ گئی سندھ حکومت نے کراچی میں ایک ہزار بسیں چلانے کا معاہدہ ختم کر دیا۔ سندھ کی وزارت ٹرانسپورٹ نے صرف ڈیڑھ سال بعد یہ معاہدہ منسوخ کیا۔ وزیر ٹرانسپورٹ نے بھی معاہدے کی منسوخی کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ معاہدہ گزشتہ برس مئی میں ہوا تھا غالباً یہ وہی معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں بسیں چلنے کی امید پہ سندھ کے وزیر ناصر حسین شاہ کبھی کراچی میں پانچ سو بسیں چلنے کی خبر دیتے کبھی چھ سو اور کبھی نو سو بسوں کی۔ لیکن یہ بسیں ہیں کہ چل ہی نہ سکیں۔ کراچی کسی نئی ٹرانسپورٹ اسکیم کی آمد کا 14 برس سے منتظر ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کراچی کا دردلیے حکمرانی کرنے والوں کا طرز عمل اس قدر عجیب کیوں ہے ایک طرف کراچی کراچی کی رٹ لگاتے ہیں اور دوسری طرف اسی شہر کو تباہ و برباد کرنے کا سامان کرتے ہیں۔ متحدہ والے کراچی کے اداروں کو سندھ حکومت کے پاس جاتا دیکھ کر خاموش بیٹھنے کے مجرم ہیں تو پیپلز پارٹی تمام ادارے اور اختیارات ہڑپ کرنے کے بعد اس شہر کے ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی، امن و امان، ترقی، صنعتوں سب سے بیگانہ ہو گئی اور کراچی یکجہتی ریلی منعقد کر رہی ہے۔ کراچی سے یکجہتی اور اس کے حقوق کی آواز اٹھانا کسی ایک پارٹی کا کام نہیں سب کو یہ کام کرنا چاہیے لیکن کراچی کے حقوق غصب کرنے والی حکمران پارٹی یا کراچی کے لوگوں اور اداروں کو لوٹ لوٹ کر تباہ کرنے والی ایم کیو ایم جو چار الگ الگ ٹولیوں میں تقسیم ہو کر کام کر رہی ہے دونوں ہی کی جانب سے ایسے بیانات اور مطالبے اچھے نہیں لگتے۔ یہ لوگ تو کراچی کو تباہ کرنے والے اور لوٹ کر کھانے والے ہیں۔ سندھ حکومت کے وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈائیوو نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اس لیے ہم نے معاہدہ ختم کر دیا۔ تا ہم وہ کراچی کو ٹرانسپورٹ کی کوئی نئی سہولت دینے کے بارے میں واضح بات نہ کر سکے بس وہی بات دوہرائی جو اس سے قبل ناصر حسین شاہ اور وزیراعلیٰ سندھ کہتے رہے ہیں کہ کراچی کو بہت جلد اچھی ٹرانسپورٹ ملے گی۔ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اویس شاہ نے کہا ہے کہ کورین کمپنی نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اس لیے ہم نے معاہدہ منسوخ کر دیا چلیں یہ تو معاہدے کی پاسداری کا معاملہ تھا حکومت سندھ حلف کی پاسداری تو کرے جس کے تحت صرف صوبے کے تمام شہروں اور علاقوں کی صحت و صفائی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ذمے دار ہے۔ کراچی کو نئی بسیں ضرور دیں یہ حکومت کی ذمے داری ہے لیکن پر انی بسیں اور شہریوں کو گاڑیاں چلانے کے لیے سڑکیں تو ٹھیک کر دیں۔ ان سڑکوں کی مرمت اور ان کی صفائی وہاں رات کو روشنی کا انتظام وغیرہ ان سب کے لیے تو کسی غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ نہیں تھا۔ کراچی کو پانی دینے کے لیے جن امور میں کسی غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ آڑے نہیں آیا یہ کام کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ سندھ حکومت بار بار کراچی کو الگ کرنے نہیں دیں گے کا نعرہ مار رہی ہے اسے سندھ دھرتی کی تقسیم قرار دے رہی ہے اس کے وزیراعلیٰ سمیت پوری پارٹی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اگر کراچی کو میٹروپولیٹن با اختیار بلدیہ دے دی جائے تو سندھ کی تقسیم کیسے ہو جائے گی۔ اگر کراچی کی آبادی درست ظاہر کر دی جائے تو اس میں سندھ کی تقسیم کہاں سے آ ئی اگر یہاں کے نوجوانوں کو ملازمت اسی اعتبار سے ملنے لگے جتنی اس کی آبادی ہے تو اس میں سندھ کی تقسیم کہاں سے آ گئی۔ حکومت کی پارٹی ریلی نکالتی ہے کراچی سے یکجہتی کے لیے۔ اسے کوئی ریلی نکالنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ حکومت کا کام تو مسائل حل کرنا ہوتا ہے یکجہتی کی ریلی اور اعلانات کرنا نہیں ہوتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ کراچی کے درجن بھر اہم اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے کر تمام بجٹ صوبائی حکومت کے اختیار ہی میںلے لیا گیا اور ریلی کراچی سے یکجہتی کے لیے نکالی جا رہی ہے۔ اسی طرح ملازمتوں کا معاملہ ہے ایک جانب جعلی ڈومیسائل کے ذریعے کراچی کے نوجوانوں کی حق تلفی کی جا رہی ہے تو دوسری طرف ملازمتوں اور افسران کے تقرر میں آئینی اور قانونی تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا جا رہا ہے۔ جن کی وجہ سے کراچی کے نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ان معاملات کو درست کرنے کا مطالبہ کسی طرح بھی کراچی کی علیحدگی یا سندھ کی تقسیم نہیں ہے۔ حکمران جماعت کو کراچی کے حقوق دینے میں زیادہ حصہ ادا کرنا ہے۔ جبکہ وفاق کو بہت سے امور میں ضمانت دینی ہو گی۔