بھارتی عدلیہ، تم بالکل ہم جیسے نکلے

127

معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض ان پاکستانیوں میں نمایاں تھیں جو ایک مدت تک بھارتی نظام کو آئیڈیلائز کرتی رہیں یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ بھارت سدھار گئیں اور زندگی کا کچھ عرصہ جلاوطنی میں گزارکر واپس پاکستان آئیں۔ وقت نے انہیں آخر کار ’’تم بالکل ہم جیسے نکلے‘‘ کی خوبصورت نظم لکھنے پر مجبور کیا۔ بابری مسجد کیس کا فیصلہ آنے پر یہ نظم ایک بار پھر حقیقت بن کر سامنے آئی۔ لکھنؤ کی عدالت نے بابری مسجد شہادت کیس کا فیصلہ اٹھائیس سال بعد دھوم دھڑکے سے سنادیا۔ فیصلہ اس غضب کا ہے کہ جس میں ہمارے نظام کا بنیادی اصول ’’مٹی پائو‘‘ جھانک رہا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بتیس ملزمان کو بریت کی کلین چٹ دے دی گئی۔ شاید بابری مسجد ہوا کے جھونکے سے گر کر شہید ہوئی ہو۔ شاید اپنے بوجھ تلے دب کر رہ ہوگئی ہو یا کسی اور پراسرار مخلوق نے اس کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا ہو۔ انصاف کا اس انداز سے بول بالا ہونے پر ہماری قومی زندگی میں مروج ایک اور اصول کی پیروی کی گئی جو انگریزی محارے ’’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔ تاخیر بھی ایسی نہ کوئی مجرم ٹھیرا نہ کسی سازش اور منصوبہ بندی کے نشان ملے جو فیصلہ پہلے دومنٹ ہی میں سنایا جا سکتا تھا اس میں اٹھائیس برس لگ گئے۔ کچھ کے مرنے کا انتظار کیا کچھ کے بوڑھا اور نحیف ونزار ہونے کا انتظار کیا گیا۔ اس فیصلے میں تیسرا اور اہم ترین اصول نظریہ ٔ ضرورت ہے جو حرف حرف میں جھلکتا اور چھلکتا ہے۔ پاکستان میں اداروں کی تباہی کا آغاز اسی نظریے کی ایجاد سے ہوا۔ بظاہر تو یہ نظریہ ایک کیس کے لیے ایجاد اور مستعمل ہوا مگر بعد میں یہی ہمارا قومی نظر یہ بن گیا۔ ملکوں اور ریاستوں کے نظام کی گاڑی کا کانٹا جب بدل جائے اور وہ اصول اور انصاف کی پٹڑی سے ہٹ کر مصلحت اور مفاد کی راہ پر چل پڑے تو ہمہ جہتی زوال اور اخلاقی شکست وریخت کی بنیاد وہیں سے پڑ جاتی ہے۔
پاکستان آج جس حالت میں ہے یہ حادثہ ایک دم نہیں ہوا وقت نے اس کی برسوں پرورش کی ہے۔ یہ دائرے کا ایک سفر ہے جس کی کوئی حد، کوئی منزل نہیں۔ نتیجتاً سفر ختم ہوتا ہے نہ منزل قریب آتی ہے۔ حکمرانوں نے عدلیہ کو آزاد ادارہ کے طور پر زندہ نہ رہنے دیا تو پھر کوئی بھی ادارہ اپنی اصلی حالت میں باقی نہ رہ سکا۔ جب اداروں کا زوال شروع ہوا تو پھر بات انارکی اور لاقانونیت تک جا پہنچی۔ آج ملک میں کوئی ادارہ اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کررہا۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا۔ دنیا کے کئی ملکوں کو ادارے بنانے اور منظم کر کے دینے والا ملک آج مضبوط اور فعال اداروں کے وجود کو ترس رہا ہے۔ جس طرف نظر دورائیں اداروں کے نام پر ملازمین کے ڈائنوسار اور مراعات کے ٹائٹینک کھڑے ہیں۔ ہر ادارہ خسارے میں جا رہا ہے۔ رشوت سفارش، اقربا پروری سب سے بڑا میرٹ ہے۔ کوئی اخلاقی قدر ہے نہ اصول وضابطہ۔ طاقت، سازش رشوت سکہ رائج الوقت ہے۔ فوجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے سمجھوتے کیے تو سیاسی حکمران عالم خوف میں اپنے گرد عافیت کا ایک حصار قائم کرنے میں لگے رہے دونوں ہی کوششیں ملک میں اقدار کے زوال کو بڑھانے کا باعث بنیں کیونکہ دونوں کوششیں کسی اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نفسیاتی خوف کی بنیاد پر ہوتی رہیں۔ اب یہ زوال کا سفر اب کسی یوٹرن تک لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اب اتنا ہوا کہ ہمیں اپنی قومی اور اجتماعی ٹرین کا کانٹا بدل جانے کا احساس ہوا اور کف افسوس بھی مل رہے ہیں اور اسے دوبارہ اپنے راہ پر لانے کا احساس بیدار ہورہا ہے۔
بھارت میں نظام حکومت وریاست ایک مخملیں پردے کے پیچھے چلتا رہا۔ اس پردے کا نام سیکولرازم، جمہوریت، پلورل ازم اور ادارہ جاتی تقسیم تھا۔ دنیا کو سال ہا سال تک بھارت کا یہی پردہ نظر آتا رہا اس کے پیچھے کیا ہوتا رہا کسی کو اس سے دلچسپی نہیں رہی۔ اس خوش نما مخملیں پر دے سے دنیا کی طرح ہم بھی متاثر تھے کہ بات بات میں بھارت کی جمہوریت، سیکولر روایات اور اداروں کی مضبوطی اور بے خوفی کی مثالیں دیتے رہے مگر حقیقت میں اس پردے میں ایک دیمک چھپا تھا جو ماہ وسال کی گردش میں اس پردے کو چاٹتا رہا یہاں تک کہ اب یہ پردہ تارتار ہونے کے قریب ہے۔ یہ ایک ہمہ جہتی زوال کی راہ ہے۔ بھارت جیسا آبادی کا سمندر اور کثیرالقومی وکثیر المذہبی ملک ہمہ جہتی زوال کا یہ جھٹکا سہہ پائے گا؟ یہ وقت کے ماتھے پر کندہ سوال ہے۔ بابری مسجد شہادت کیس کا فیصلہ عدالتی لطائف میں سے ایک ہے۔ بابری مسجد کیس میں بری ہونے والے ملزمان کے چہرے کیمروں کی آنکھوں نے محفوظ کیے ان کی آتشیں تقریریں خوفناک چہروں اور فتنہ پرور لہجوں کے ساتھ ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ٹی وی اسٹوڈیوز اور لائبریریوں میں یہ سب کچھ محفوظ ہوگا۔ مرلی منوہر جوشی، لال کرشن اڈوانی، ونے کٹیار، کلیان سنگھ، اوما بھارتی سمیت ہر چہرہ عیاں اور جانا پہچانا مگر عدالت کو چونکہ کوئی ’’ثبوت‘‘ نہیں ملا اس لیے بری ہونے والے خوش نصیبوں میں یہ سب شامل ہیں۔ یہی نہیں آرایس ایس اور ویشوا ہندو پریشد کے کارکن بھی بریت کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ بابری مسجد سے متعلق دوکیس عدالت میں زیر سماعت تھے ان میں ایک کیس زمین کے تنازعے پر تھا کہ یہ زمین مسلمانوں کی ملکیت ہے یا ہندوئوں کی۔ گزشتہ برس نومبر میں عدالت نے فیصلہ سنایا کہ زمین ہندئووں کی ملکیت ہے۔ دوسرا فیصلہ بابری مسجد کی شہادت کا تھا جس پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ’’مٹی پائو‘‘ اصول لاگو کر دیا اور مٹی پائو اصول میں اٹھائیس برس ضائع کیے۔ ایک ایسا ہی فیصلہ سنانے والے جج لوک سبھا کے رکن بنا دیے گئے ہیں۔ بھارت میں عدلیہ کا زوال اس راہ کا پڑائو ہے اب یہ سفر اسی سمت میں آگے اور آگے ہی جاری رہے گا۔ جو پاکستانی اس نظام کی مثالیں اور نظائر پیش کرتے تھے انہیں اب آئیڈیلائز کرنے کو کوئی نیا ملک نیا نظام تلاش کرنا چاہیے کیونکہ بھارت کا حال تو فہمیدہ ریاض کی زبان میں اپنے جیسا ہی ہونے جا رہا ہے۔
تم بالکل ہم جیسے نکلے۔ اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔ پھر تم لوگ پہنچ جائو گے۔ بس پر لوک پہنچ جائو گے۔ ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر۔ تم بھی سمے نکالتے رہنا اب جس نرک میں جائو وہاں سے۔ چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا۔