بغاوت کا مقدمہ۔ فائدہ کس کا؟

460

پاکستانی حکومت اور عسکری اداروں کے خلاف تقاریر کرنے پر مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ آزاد کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر، نواز شریف کی بیٹی، مریم نواز، راجا ظفر الحق، احسن اقبال، پرویز رشید، رانا ثنا، خواجہ سعد رفیق سمیت 43 رہنما شامل ہیں جنہیں مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے بغاوت کے مقدمے کے اندراج پر پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا گیا ہے لیکن یہ ناپسندیدگی کسی طور بھی یہ ثابت نہیں کر رہی کہ اس مقدمے کے اندراج میں حکومت کی خواہش شامل نہیں۔ ملک بھر کے تھانے مقدمات درج کرنے میں اس امر کا خوب لحاظ رکھتے ہیں کہ اس سے حکومت ناراض تو نہیں ہوگی یا اس مقدمے کے اندراج سے حکومت خوش ہوگی۔ لاہور کے شاہدرہ تھانے میں جس شہری بدر رشید نے یہ مقدمہ درج کرایا ہے اس قسم کے مقدمہ درج کرانے والے پاکستان بھر میں موجود ہیںاوریہ بھی پی ٹی آئی اور ہسٹری شیٹر نکلا اس پر خود کئی مقدمات قائم ہیں۔ایسے مقدمے کرنے والے بعض تو اتنے پرانے ہوگئے ہیں کہ ہر ایسے مقدمے میں لوگ ان کا نام لیتے اور مدعی وہی نکلتے تھے۔ اس مقدمے کے تحت ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت یا عمر قید اور اضافی دو سال کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ مدعی نے الزام لگایا ہے کہ نواز شریف کی تقاریر کا مقصد کشمیر سے توجہ ہٹانا اور بھارت کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اس مقدمے کے اثرات مختلف جہتوں میں ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو سامنے رکھیں تو یہ مقدمہ چلے گا اور چلتا ہی چلا جائے گا۔ جیسا کہ غدار اول الطاف حسین کی قابل اعتراض تقاریر والا مقدمہ، اس میں گواہیاں، بیانات، رپورٹیں، چالان وغیرہ پھر نئی سماعتیں اور التوا جاری ہے جب قابل اعتراض تقاریر پر غدار اول جس نے فوج اور جرنیلوں کا باقاعدہ نام لے کر اور بھارت کو آواز دے کر مدد طلب کی تھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا تو اس کا کیسے ہو جائے گا جبکہ یہ الزام الگ ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے عدلیہ پر بہت اثرات ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں تو ان کے لگائے ہوئے ججز بھی موجود ہیں۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مقدمہ طول پکڑے گا اور جتنی سماعتیں ہوں گی، جتنی پیشیاں ہوں گی اس سب کے نتیجے میں میاں نواز شریف اور اپوزیشن کا نام میڈیا ٹی وی چینلز وغیرہ پر اجاگر ہو گا اور وہ بات بار بار دہرائی جائے گی جس کے بیان کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کے اندراج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی قوت پاکستان میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو ایک بار پھر برسر اقتدار لانے کے لیے فضا سازگار کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جہاں تک ملک اور پاکستانی عوام کا تعلق ہے تو یہ مقدمہ، اس کا سارا شور شرابا اور ہنگامے کا خرچہ پاکستانی قوم ادا کرے گی۔ میڈیا پر تماشے لگیں گے ان پر مسلم لیگی، پیپلز پارٹی والے اور پی ٹی آئی والے بیٹھیں گے اور قوم بڑی دلچسپی سے ساری چیزوں کو دیکھے گی۔ یہ ڈرامے کون کروا رہا ہے ان کے پیچھے کوئی تو ہے، اگر میاں نواز شریف نے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے لیے ایسی باتیں چھیڑ دی ہیں تو ان کا ایماندارانہ تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ یہ رویہ بھی پرانا ہو گیا ہے کہ حکومت کے خلاف جو بولے وہ غدار ہے۔ ریاست کا مجرم ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک کے ان غداروں کے خلاف اب تک کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوا کہ انہیں نشان عبرت بنا دیا گیا ہو۔ پاکستانی حکومت نے پیپلز پارٹی کے بانی کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کے خلاف درجنوں ایسے مقدمات بنائے، قومی میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا نے اس کا خوب چرچا کیا۔پاکستانی عسکری ادارے بھی زیر بحث رہے لیکن میر مرتضیٰ بھٹو با عزت طور پر پاکستان آئے، سندھ اسمبلی کے رکن بنے اور کراچی میں قتل ہو گئے۔ بالاخر شہید قرار پائے۔ مرتضیٰ بھٹو کے خلاف مقدمات کہاں گئے۔ بلوچستان کے کئی لیڈروں کے خلاف غداری کے مقدمات درج تھے لیکن ان میں سے کوئی پاکستان آکر وزیراعلیٰ بنا کوئی وزیر اور رکن اسمبلی۔ ان سب کو کس نے عزت دی۔ کوئی قوت تو ملک میں ہوتی ہے جو ایسے مقدمات والوں کی پذیرائی بھی کرتی ہے ان کو مواقع بھی فراہم کرتی ہے اور انہیں ایوان اقتدار تک پہنچاتی ہے۔میاں نواز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسی تقریر کی۔ میاں نواز شریف اور شریف خاندان اپنے اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن اب حکومت ذرا اس معاملے پر توجہ دے کہ اس مقدمے سے کشمیر کو کیا نقصان پہنچے گا۔ پہلا حملہ تو آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو مقدمے میں نامزد کرکے کیا گیا ہے۔ اس کا کشمیر کاز کو فائدہ ہرگز نہیں ہوگا بلکہ بیس کیمپ کو براہ راست نقصان پہنچایا گیا ہے۔ پاکستان کی تمام حکومتیں آزاد کشمیر کو بیس کیمپ قرار دیتی رہی ہیں اور آزاد کشمیر میں کسی ایسی پارٹی یا شخصیت کو اقتدار میں آنے بھی نہیں دیا جاتا جس کی کشمیر کاز سے وابستگی مشتبہ ہو۔ اگر راجا فاروق حیدر کو صرف اس بنیاد پر مقدمے میں ملوث کیا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق بھی مسلم لیگ سے ہے یا اس کے ہمدرد ہیں تو پھر یہ پاکستان کی طرف سے کشمیر پر بڑا حملہ قرار دیا جائے گا۔ بیس کیمپ کے وزیراعظم پر پاکستان سے غداری کا مطلب تحریک آزادی کشمیر پر حملہ ہے۔ ہمارے حکمران پاکستانی عوام کے ساتھ اپنا کھیل کب ختم کریں گے اب تو صاف نظر آرہا ہے کہ یہ اقتدار کا کھیل ہے عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔