رہبریگانہ… عبدالغفار عزیز

300

عجب زمانہ ہے اُمت کے درخشندہ ستارے ایک ایک کرکے اُٹھتے جارہے ہیں اور پیچھے رہ جانے والے افسوس اور رنج سے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ حال ہی میں منور حسن کے بعد عبدالغفار عزیز کی رحلت عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے یہ وہ ہستیاں ہیں جو صداقت و عدل اور محبت و ایثار کی بنیادوں پر خدا کی بندگی والا معاشرہ تعمیر کرنے کے لیے دعوت حق کے چراغ جلاتے رہے۔ محترم عبدالغفار عزیز کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ خاص طور سے عربی اہل زبان کی طرح بولتے تھے۔ جماعت اسلامی کے شعبہ امور خارجہ کے نگراں تھے۔ بین الاقوامی سیمینار اور کانفرنسوں میں شرکت کرتے تھے اور جماعت اسلامی ہی نہیں پاکستان کی نمائندگی کا بھی حق ادا کرتے۔ ان کے پوری دنیا میں امت کے رہنمائوں سے برادرانہ تعلقات تھے۔ اُمت کے بارے میں ان کے مضامین حقائق کو کھولتے اور راہیں سلجھاتے تھے۔ اب ہم ان کا نعم البدل کہاں سے پائیں گے؟؟۔
سچ یہ ہے کہ ایک ایسا فرد رخصت ہوا ہے کہ جو ڈھونڈے سے ملنے والا نہیں۔ یہ حقیقت میں اُمت مسلمہ کا نقصان ہے۔ اُن کے باعث جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے باعث پاکستان دنیا بھر کے برادر اسلامی ملکوں اور تحریکوں سے جڑا تھا۔ صرف جڑا نہیں بلکہ مضبوط اور مربوط رابطے میں تھا۔ نقصان پُر ہونا تو ممکن نہیں لیکن ان کے صاحبزادے اور دیگر نوجوانوں کو اُسی نہج پر تربیت دینی ہوگی کہ ابھی سفر کٹھن ہے اور منزل آنکھوں اور دل میں بسی ہے۔ اگرچہ وراثتی سیاست جماعت کی سرشت میں ہے نہ اسلام کی لیکن معاملہ تو اُس علمی وراثت تعلیم اور تربیت کا ہے جو بحیثیت ایک مربی کے نوجوانوں نے حاصل کی اور کرتے ہیں۔ آج کہا جاتا ہے کہ دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جدید سائنس نے دنیا کے ممالک کو اتنا قریب کردیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوئے بھی الگ نہیں ہیں۔ مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگ ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے یوں جڑجاتے ہیں کہ ایک محلے میں بسنے والے بھی اپنے اپنے گھروں سے نکل کر باہر گلی میں جمع نہیں ہوتے ہیں۔ اس میل ملاپ اور قربت کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ملکوں اور قوموں میں محبت یگانگت خیرخواہی اور تعاون کے جذبات پیدا ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے آج ملک اور اقوام دور جہالت کی طرح ایک دوسرے کی جانی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ جدید سائنس نے محبت اور مروت کے جذبات کو کچل کر ذاتی فائدے تک محدود کردیا ہے۔ جو دین کے لیے اخلاص نیت اور دردمندی رکھتا ہے اور دین حق کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے اُسے چاہیے کہ اپنے جیسے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کی تربیت کا کام باریک بینی اور محبت و اخلاص سے کرتا رہے اور کرنے والے کررہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ دین کا کام ہو یا دنیا کا کرنے والا تو ربّ حقیقی ہی ہے البتہ کوشش کرنا مطلوب ہے۔
آج پاکستان ہو یا پوری دنیا سب میں بے شمار جماعتیں ہیں جن کی قیادت کے لیے یا رکنیت کے لیے صرف کسی خاص قوم ملک یا نسل میں پیدا ہونا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اور سیرت و کردار اور اخلاق کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور پوری دنیا میں سیاسی رہنمائوں کے خلاف آئے دن کوئی نہ کوئی اسکینڈل اور خبریں سنے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی میں رکنیت کے لیے جو چیز دیکھی جاتی ہے وہ امانت، دیانت، اخلاص اور درد دل ہے۔ وقتاً فوقتاً ان کی زندگیوں اور ذہنی سمت کی درستی کا جائزہ بھی لیا جاتا رہتا ہے۔ طریقہ کار رکنیت کا طویل ہے باریک بین ہے لیکن یہ اس لیے اپنایا گیا کہ جماعت اسلامی کو ارکان جماعت کی قلت یا کثرت سے بحث نہیں ہے۔ بلکہ کردار سیرت اخلاص اور اخلاق کی قلت اور کثرت پر توجہ ہے۔ لہٰذا اہم یہ ہے کہ ہر مقام کے لیے ایسے پختہ کار افراد میسر آجائیں جو قابل اعتماد طریقے سے تحریک کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دیں۔ عبدالغفار عزیز نے لمحہ لمحہ اُمت کی پاسداری اور تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ جب بھی بیسویں صدی کی معروف شخصیت کا تعارف کرایا جائے گا۔ خاص طور سے وہ جنہوں نے امت کو پیش آنے والے خطرات کا ادراک کیا اور اُس کے لیے نظریاتی اور علمی جنگ لڑی تو عبدالغفار عزیز اُن میں شامل ہوں گے۔ اللہ ان کو حشر میں صلحاء اور شہداء کے ساتھ اُٹھائے (آمین)۔