حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے بھارت سے کہا ہے کہ ’’بھارت کو افغانستان میں امریکا اور روس کا حشر یاد رکھنا چاہیے‘‘۔ ایسا نہ ہو کہ بھارت کے افغانستان سے نکلتے ہی طالبان بھارت میں داخل ہونے پر مجبور ہوجائیں۔ ان کا یہ بیا ن ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب ’’پہنچے وہیں پہ خاک جہا ں کا خمیر ہو‘‘ کے مصداق افغانستان کے نام نہاد ’’مارشل‘‘ کا عہدہ رکھنے والے عبدالرشید دوستم طالبان کی مخالفت میں ایک مرتبہ پھر بھارت کی آغوش میں جانے کے لیے بے تاب ہو رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر جن کو دنیا کے ایک ناکام وزیرِ خارجہ کے طور پر پہچانا جاتا ہے سے عبدالرشید دوستم نے خفیہ ملاقات کی اور طالبان کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ان سے مدد طلب کی۔ جس کے جواب میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں جن میں ’’یو ایس ایس آر‘‘ اور ’’امریکا‘‘ شامل ہیں کی افغانستان میں حقارت آمیز شکست کو یاد کرے اور ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس کی اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے۔
ہم نے اپنے 18جولائی 2020 کے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ: ’’عبدالرشید دوستم کو افغان حکومت نے 15جولائی 2020ء کو مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی ہے۔ اس موقع پر مارشل دوستم کا کہنا ہے کہ یہ عہدہ ان کو صدر اشرف غنی اور خود ان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت دیا گیا ہے۔ اس موقع پر مارشل دوستم نے امریکا سے کہا کہ وہ افغانستان سے نکلنے میں عجلت سے کام نہ لے اور ان کو چھ ماہ کی مہلت دے تاکہ طالبان کو شکست دو چار کر سکیں جس سے افغانستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں دونوں کا خاتمہ ہو سکے گا‘‘۔
اسی آٹیکل میں عبدالرشید دوستم کو مشورہ دیا تھا کہ: مارشل عبدالرشید دوستم سے زیادہ کون طالبان کو جانتا ہوگا ان کو اس بات کا علم اچھی طرح ہے کہ افغانستان میں لڑی جانے والی سوویت یا روسی لڑائی مجاہدین نے 9 سال تک لڑی۔ اس کا آغاز دسمبر 1979ء اور اختتام فروری 1989ء میں ہوا۔ اس لڑائی میں ایک طرف تو افغان فوج کے نام پر روسی فوج لڑ رہی تھی تو دوسری طرف ساری دنیا کے مجاہدین روس کے خلاف برسر پیکار تھے۔ سعودی عرب، پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک نے مجاہدین کا ساتھ دیا۔ دوسری جنگ امریکا، طالبان کے درمیان ہوئی اس جنگ میں بھی مارشل دوستم اور ان کے ساتھی عبداللہ عبداللہ، اشرف غنی بھی اس کے ہم رکاب رہے ہیں۔ یہ سب آج طالبان سے جنگ کے بجائے مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں۔ مارشل عبدالرشید دوستم کو یہ بات معلوم ہو گی کہ ’’اپنی بادشاہت کو برقرار رکھنے کے لیے شیر بھی اس راستے سے نہیںگزرتا جہاں سے چیتوں کا گزر ہوتا ہے‘‘، اس لیے مارشل عبدالرشید دوستم کو افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا اور اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی طر ح جنگ کے بجائے بات چیت کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے تاکہ افغانستان میں امن کا خواب بھی پورا ہوسکے۔
عبد الرشید دوستم نے سوویت اتحاد کے افغانستان پر قبضہ کے بعد روس کی حمایت میں جنگ لڑی۔ اس کی ذاتی فوج ہے اور اس حوالے سے اپنے آپ کو جرنیل کہلواتا ہے۔ طالبان حکومت کا مخالف رہا۔ انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے جنگی مجرم سمجھا جاتا ہے۔ 2002ء میں طالبان پر افغانستان میں امریکی حملے کے بعد امریکی حمایت میں جنگ لڑتا رہا۔ 2014ء کے انتخابات میں افغانستان کا نائب صدر منتخب ہوا۔ 2017ء میں افغانستان کی حکومت نے نائب صدر رشید دوستم کے طیارے کو مزار شریف میں اترنے کی اجازت نہیں دی جس کے بعد ان کا طیارہ ترکمانستان میں اترا۔ 27ستمبر 2020 کو مزار شریف سے شبیرگان جاتے ہوئے اْچ کے مقام پر طالبان نے نائب صدر اوّل رشید دوستم کے کانوائے پر حملہ کر دیاحملے میں ان کے حفاظتی دستے کا ایک گارڈ ہلاک اور 2 زخمی ہو گئے لیکن وہ خود زخمی ہونے سے محفوظ رہے ہیں۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں دوستم کے 4 حفاظتی گارڈ زہلاک ہو گئے ہیں۔
بھارت 2018ء سے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے بھی رابطے اور تعلق بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے افغانستان کے سابق وزیراعظم اور افغان مجاہد سردار گلبدین حکمت یار کے خلاف پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ انہیں اقوام متحدہ کی طرف سے جنگی جرائم کا مرتکب ہونے کے الزام میں عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ افغان حکومت کی درخواست پر کیا گیا۔ ایک ایسے موقع پر جب افغان نائب صدر ’’عبداللہ عبداللہ‘‘ پاکستان سے درخواست کر گئے ہیں ’’دوحا امن کانفرنس کوکامیاب کرانے کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کرے‘‘ اور ہر صورت ان مذاکرات کو کامیاب کرائے لیکن اس کے ساتھ افغان نائب صدر عبداللہ عبداللہ 6اکتوبر سے بھارت کے دورے پر ہیں۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ وہ عبداللہ عبداللہ کی مدد سے کسی طرح افغان حکومت اور طالبان کے جاری مذاکرات کو تباہ و برباد کرے۔ اسی دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے بھارت نے ’’رشید دوستم‘‘ کو بھی بھارت آنے کی دعوت دی ہے لیکن افغان حکومت اس کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔
بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان میں ماضی میں بھی بھاری رقوم خرچ کرتا رہا ہے اور ایک بھارتی اخبار کی خبر نے پوری دنیا میں یہ ثابت کردیا ہے کہ ’’بھارت دنیا کا سب سے بڑا منی لانڈرنگ کرنے والا ملک ہے‘‘ اس بات کا اعلان پاکستان یا چین نے نہیں کیا بلکہ بھارت کے اپنے اخبار The Indian Express کا کہنا ہے کہ:
44 Indian banks, transactions of $1 billion, flagged to US regulator
جی ہاں! یہ رپورٹ یوایس بینکنگ اتھارٹی کی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ بھارت کے بڑے بڑے بینکس جن میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا، یونین بینک آف انڈیا سمیت بھارت کے 44بینکس صرف امریکا میں منی لانڈرنگ کر رہے ہیں۔ امریکا کی بینکس اتھارٹی جس کا پورا نظام کمپیوٹر اور سُپر کمپیوٹرز سے لیس ہے اگر بھارت اس طرح کی الیکٹرونکس سیکورٹی میں اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ کر رہا ہے تو ایران، افغانستان، بنگلا دیش، بھوٹان اور وسط ایشیائی ممالک میں کس طرح بھاری منی لانڈرنگ کر رہا ہو گا۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈرنگ کے سلسلے میں نئے قوانین بنوادیے لیکن بھارت ساری دنیا میں منی لانڈرنگ کرتا پھر رہا ہے اس سلسلے میں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ بھارت کو فوری طور پر ایف اے ٹی ایف کے سامنے پیش کرے۔ بھارت نے افغانستان اور پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کے لیے اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی ہوگی لیکن ہم اپنے مسائل میں اور آپس ہی میں اس بات پر متفق نہیں کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کس کے پاس ہے۔ لیکن بھارت کو حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارکی دھمکی پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو بھارت بھی افغانستان میں امریکا اور یو ایس ایس آر کی طرح طالبان کو اربوں ڈالرز کا تاوان ادا کرنے لیے اپنے کسی صوبے کو حوالے کر نے پر مجبور ہو جائے۔