گلگت بلتستان: سمٹتی ہوئی داستان دراز (آخری حصہ)

309

٭ 28مئی 1999کو عدالت عظمیٰ نے حکومت پاکستان کو حکم دیا کہ وہ چھ ماہ میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو تمام حقوق فراہم کرے لیکن اسی برس اکتوبر میں مارشل لا لگ گیا جس کی وجہ سے 2008 تک گلگت بلتستان کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
٭ 2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان کو با اختیار بنانے کا فیصلہ کیا اور ’’خود حکمرانی کا حکم 2009‘‘ (GB Empowerment and Self-Governing Order 2009) جاری کیا۔ اس حکم میں شمالی علاقہ جات کا نام گلگت بلتستان قراردیا گیا۔ ایک 33رکنی قانون ساز اسمبلی بنائی گئی جس کا اپنا منتخب وزیراعلیٰ تھا۔ یوں گلگت بلتستان کا انتظامی ڈھانچہ کسی حدتک پاکستان کے دیگر صوبوں جیسا ہوگیا۔ گلگت بلتستان آئینی طور پر پا کستان کا حصہ بنے بغیر ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا۔
٭ 17اگست 2015 کو گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’’گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ قراردیا جائے‘‘۔
٭ اکتوبر 2015 کو وزیراعظم نواز شریف نے وزیر خارجہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جس کا کام یہ تھا:
1۔ گلگت بلتستان کی موجودہ آئینی اور انتظامی حیثیت کا جائزہ لیا جائے اور اگر کوئی کمی ہے تو اس کی نشاندہی اور تجزیہ کیا جائے۔
2۔ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا گلگت بلتستان کی موجودہ حدود آزادی سے قبل موجود ریاست جموں وکشمیر سے تجاوز کرتی ہیں۔
3۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آئینی اور انتظامی اصلا حات تجویز کی جائیں۔
٭ وزیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی نے 17مارچ 2017 کو 93صفحات پر مشتمل سفارشات پیش کیں جن کے اہم نکات یہ تھے:
1۔ جب تک جموں وکشمیر کا حتمی فیصلہ نہیں ہوجاتا، عوام کی امنگوں کو پورا کرنے اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے گلگت بلتستان کو ایک صوبے کا عارضی درجہ دے دیا جائے۔ یہ قدم گلگت بلتستان کے لوگوں کی باضابطہ درخواست کا مثبت جواب ہوگا جیسا کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے 17اگست 2015 کو منظور کی جانے والی متفقہ قرارداد میں کہا تھا۔
2۔ عوامی خواہشات پر کی جانے والی اصلاحات سے کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ یہ اصلاحات اس وقت تک کے لیے ہیں جب تک جموں وکشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فیصلہ نہیں ہوجاتا۔
٭ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ان تجاویز کی روشنی میں ’’حکومت گلگت بلتستان آرڈر 2018‘‘ تیار کیا جس کے تحت گلگت بلتستان کی حیثیت کو باقی صوبوں کے برابر لایا گیا۔ اسے تمام قانونی اداروں جیسا کہ این ای سی، این ایف سی اور آئی آر ایس اے میں نمائندگی دی گئی۔ دیگر صوبوں کی طرح اسے بھی اپنے صوبے میں ترقیاتی کاموں کی منظوری کا اختیار دیا گیا۔
٭ 31مئی 2018 کو مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہونے کی وجہ سے اس آرڈر پر عمل نہ ہوسکا۔ اس آرڈر پر مکمل عمل درآمد کے لیے آئین کی دفعات 51اور 59 میں ترمیم کرنا ضروری تھا جس کے تحت گلگت بلتستان کے لوگوں کو عارضی صوبہ ہونے کے ناتے پاکستان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ملتی۔ یہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے مطابق بھی تھا جس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا خاص خیال رکھتے ہوئے آئین کی دفعات 51اور 59میں ترامیم کا مشورہ دیا تھا نہ کہ دفعہ نمبر ایک میں ترمیم کا۔ آئین کی دفعہ نمبر ایک میں ریاست پا کستان کے فیڈریٹنگ یو نٹس کو بیان کیا گیا ہے۔
یہ گلگت بلتستان کی قدم بہ قدم صورتحال تھی۔ اس وقت گلگت بلتستان نہ ہی صوبہ ہے اور نہ ہی ریاست۔ اس کی حیثیت ایک نیم صوبے جیسی ہے۔ پاکستان کی تمام حکومتیں گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کے مطالبے سے اس لیے پہلو بچاتی رہیں کیونکہ اس صورت میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے پاکستان کے مطالبے کو سخت نقصان پہنچتا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد بھی گلگت بلتستان کے بارے میں 2018کے آرڈر پر کام رکا رہا لیکن اب اچانک حکومت اس معاملے میں اس درجہ فعال ہوگئی ہے کہ اس علاقے کو پاکستان میں ضم کرکے صوبے کا درجہ دینے جارہی ہے۔
تحریک انصاف حکومت اس فعالیت کی جو توجیہات پیش کررہی ہے اس میں سب سے اہم سی پیک کا حوالے سے ہے کہ چین ایسا چاہتا ہے تاکہ اس کے منصوبوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔ اس بات میں کوئی دم نہیں۔ چین کی طرف سے ایسا کوئی بیان یا مطالبہ کبھی سامنے نہیں آیا۔ چین کے تعاون سے شاہراہ قراقرم جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے اسی علاقے میں تعمیر کی گئی تھی تب چین کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا گیا تو اب وہ ایسا کوئی مطالبہ کیوں کرے گا۔ بفرض محال اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ چین کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ کیا بھی گیا ہے تو کیا چین کے مطالبے پر ہم کشمیر کے بارے میں اپنے دیرینہ اخلاقی موقف سے پیچھے ہٹ جائیں اور اپنی شہہ رگ سے دستبردار ہوجائیں؟
ایک وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام ایک عرصے سے یہ مطا لبہ کررہے ہیں۔ یقینا ایسا ہی ہے لیکن ضم ہونے سے بڑھ کر ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کی جان ایک ایسے نظام سے چھڑائی جائے جس کی وجہ سے ان کی زندگی ان گنت مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ اگر کسی دوسرے طریقے سے ان کے مسائل حل کردیے جائیں تو یقینا وہ اس وقت تک پاکستان میں ضم ہونے کا انتظار کرسکتے ہیں جب تک کہ کشمیر کے مسئلہ کا تصفیہ نہیں ہوجاتا۔
73برس سے پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے اور اس کی قسمت کا فیصلہ کشمیر کے فیصلے سے منسلک ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت اس محاذ پر اچانک سرگرم ہوگئی؟ اس کی وجہ امریکی احکامات ہیں۔ گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنا اس امریکی منصوبے کے مطابق ہے جس کے تحت کنٹرول لائن کو مستقل سرحد قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو دفن کرنا ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل یہی ہے کہ جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ پاکستان کے پاس رہے اور جو حصہ بھارت کے زیر قبضہ ہے وہ بھارت کے پاس رہنے دیا جائے۔ 5اگست 2019 کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے بھارتی یو نین میں شامل کرنا اسی منصوبے کا حصہ تھا۔ اب پاکستان کی طرف سے ایسا ہی قدم اٹھاکر گلگت بلتستان کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے پاکستان میں ضم کرنا امریکی منصوبے پر عمل کرنا ہے۔ بظاہر یہ مودی کے عمل کا ردعمل ہے لیکن ایسا کرنے سے پاکستان پورے کشمیر پر اپنے حق سے دستبردار ہوجائے گا۔ اس صورت میں نریندر مودی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کیا اخلاقی جواز باقی رہے گا۔ امریکا کی گود میں بیٹھی ہوئی موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت ایک طرف افغانستان میں نام نہاد امن عمل کے ذریعے امریکا کی کامیابی کی راہ ہموار کررہی ہے تو دوسری طرف کشمیر کی جدوجہد سے غداری کی مرتکب ہورہی ہے۔ وہ قیادت جو کھلے عام کشمیریوں کی مدد کرنے کو کشمیریوں سے دشمنی اور دہشت گردی قراردے اور کشمیریوں کو تنہا کرکے مرنے کے لیے بھارت کے حوالے کرچکی ہو، جو مودی کے 5اگست کے اقدام کا عملی جواب دینے کے بجائے مسلسل ٹرخانے پر کوشاں ہو، اس سیاسی اور فوجی قیادت سے اس کے علاوہ کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟