حوصلہ رکھیے

267

عادل اعظم گلزار احمد نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ قانون پر عمل درآمد کروانے کے پابند ہیں۔ یہی ان کی اولین ذمے داری ہے۔ اور ہر حال میں اپنی ذمے داریوں کو نبھائیں گے۔ مگر یہ حقیقت بھی نا قابل تردید ہے کہ فیصلہ سننے کے بعد دونوں فریقوں میں سے ایک فریق کا ناراض ہونا۔ اور فیصلے سے اختلاف کرنا ایک یقینی عمل ہے۔ مگر ہمیں فریقین کی ناراضی یا اختلاف سے کوئی غرض نہیں ہم صرف اور صرف قانون کے مطابق ہی فیصلہ سنانے کے پابند ہیں۔
عادل اعظم کے فرمان سے اختلاف کی کوئی وجہ نہیں مگر اختلاف اس وقت پیدا ہو تا ہے جب عدالتی فیصلہ قانون شکنی پر مبنی ہو۔ بغیر ثبوت کے کسی مقدمے کی سماعت اور پیروی قانون شکنی کی بدترین شکل ہے۔ اور یہی چیز عدالتی فیصلوں سے اختلاف کا باعث بنتی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ ہماری عدالتیں بغیر ثبوت کے مقدمات کی سماعت کرتی ہیں۔ اور پھر پیشی در پیشی کا مکروہ ترین سلسلے کا آغاز کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عدالتیں جعل سازی پر مبنی مقدمات کی سماعت کیوں کرتی ہیں؟ اور پھر اپیل در اپیل کے شیطانی عمل کا آغاز کیوں کیا جاتا ہے۔ عدالتوں کا یہ شرم ناک رویہ نسل در نسل اذیت کا سبب بنتا ہے۔ تو کیا…! یہ تسلیم کر لیا جائے کہ عدالتیں قانون شکنی کو بھی قانون پر عمل درآمد کا حصہ سمجھتی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ قانون شکنی بھی عدلیہ کی ذمے داری ہے۔
ہمارے ایک عزیز ملازمت کے سلسلہ میں کراچی گئے اور اپنے دومکان اور چار دکانیں اپنے سوتیلے بھائیوں کے سپرد کر گئے۔ کہ ان کے پاس اپنا مکان نہیں ہے۔ دس سال بعد ہمارے عزیز واپس آئے تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ مکان اور دکانیں ان کی سوتیلی ماں کے نام ہو گئی ہیں۔ محکمہ مال سے رجوع کیا گیا تو مکان اور دکانیں ان کے نام منتقل ہو گئیں اور ان کے سوتیلے بہن بھائی سول کورٹ چلے گئے۔ نو دس سال کے بعد عدالت نے عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا۔ حالانکہ یہ مقدمہ پہلی پیشی پر بھی خارج کیا سکتا تھا۔ فریقِ ثانی سیشن کورٹ چلا گیا اور جب سیشن کورٹ نے بھی عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا تو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ جہاں یہ مقدمہ 7سال سے پیشی کا منتظر ہے۔ مالک مکان در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے اور قابض اپنی جعل سازی سے انجوائے کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو مقدمہ عدم ثبوت کی بنا پر خارج ہوتا ہے اس کی اپیل کس قانون کے تحت سماعت کے لیے منظور کی جاتی ہے۔ اور پھر یہ شیطانی سلسلہ عدالت عظمیٰ تک جاتا ہے۔ شاید عادل اعظم ان معاملات سے بے خبر ہیں۔ ورنہ وہ کبھی یہ فرمان صادر نہ فرماتے کہ ماتحت عدالتیں ایسے فیصلے کریں کہ مقدمہ اعلیٰ عدالتوں میں نہ جائے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جب ادنیٰ عدالتیں واضح طور پر لکھتی ہیں کہ مدعی کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا اس لیے مقدمہ خارج کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے مقدمات کو پہلی پیشی ہی میں خارج ہو جانا چاہیے۔ مگر جج صاحبان کی مجبوری یہ ہے کہ جو وکلا ایسے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں وہ جج صاحبان کو ایسے مقدمات کی سماعت پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اگر وہ وکلا کی بات نہ مانے تو وکلا عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔ اور بار کونسل ایسے جج صاحبان کا تبادلہ کرنے پر دبائو ڈالتی ہے۔ اور بدنصیبی یہ ہے نظام عدل کے کرتا دھرتا اس دبائو پر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔
جب کوئی مقدمہ عدم ثبوت کی بناء پر خارج ہوتا ہے تو اس کی اپیل کیا معنی رکھتی ہے۔ اور اس کی سماعت کا کیا جواز ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سیشن کورٹ کے بعد ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ کے بعد عدالت عظمیٰ ان مقدمات کی سماعت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔
ہم عادل اعظم سے مودبانہ گزارش کریں گے کہ وہ ایک حکم کے ذریعے ثبوت کے بغیر مقدمات کی سماعت اور پیروی کو جرم قرار دیں۔ اور جو رجسٹرار یا ڈپٹی رجسٹرار ایسے مقدمات سماعت کے لیے پیش کرتے ہیں انہیں جرمانے کی سزا سنائیں اور جعلی مقدمات دائر کرنے والے اور اس کے وکیل کو بھی جرمانے کی سزا سنائیں۔ تو کوئی بھی مقدمہ سول کورٹ سے آگے نہیں جا سکتا۔ حالانکہ ہمارے ہاں ایسے مدعی اور وکلا کو جرمانے کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ سابق چیف جسٹس چودھری افتخار ایک جعلی مقدمے میں مدعی اور پیروی کرنے والے وکیل کو سزا سنا چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ بھی جعلی مقدمہ دائر کرنے والے کو سزا سنا چکی ہے۔ کوئی کام نا ممکن نہیں ہوتا بشرط یہ کہ غلط کام کے انسداد کے لیے جرأت مندانہ اقدام کیا جائے۔ قبل ازیں عادل اعظم کے پیش رو بھی انصاف کی جلد فراہمی کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ مگر کسی فریق کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ عملی اقدامات کرتے یوں ان کے اقدامات اخبارات کی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ جج صاحبان کے لیے سماجی فاصلہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ مہذب ممالک میں کوئی بھی منصف سماجی فاصلے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ مگر ہمارا یہ حال ہے کہ ہم کورونا وائرس کے خوف ہی سے سماجی فاصلہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سیانے کہتے ہیں کہ بے خوف قیادت قوم کے لیے خدا کا قہر ہوتی ہے۔ احتساب کا خوف حسن کارکردگی کے لیے بہت ضروری ہو تا ہے۔