یہ دو چار دن پہلے کی بات ہے یعنی ستمبر 2020ء کے آخری دنوں میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی وزارت خارجہ سے کہتی ہیں کہ ’’عافیہ کی اہل خانہ سے بات کروادیں اور عافیہ کی واپسی ملک و قوم کے لیے رحمت خداوندی کا باعث ہوگی‘‘ کیا بے بسی ہے۔ کہتی ہیں کہ اس جیل میں جس میں عافیہ قید ہیں کورونا کے باعث وہاں انتہائی سنگین حالت ہے۔ عافیہ کی والدہ اور بچوں سے اگر ٹیلی فون اور ویڈیو لنک سے بات ہوجائے تو اہل خانہ کی تشفی ہوجائے کہ عافیہ زندہ اور خیریت سے ہیں‘‘۔
یہ معصوم سی خواہش کیا وزیر خارجہ پوری کرپائیں گے۔ آخر کیوں نہیں اس کے لیے کچھ کوششیں کی جاتیں۔ حکومت میں آکر سارے سیاست دان اور وہ جماعتیں وعدے بھول جاتی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی قابل فخر بیٹی ہیں۔ آخر کیسے حکومت امریکی جیل میں ان کی قید پر اطمینان سے منہ بند کرکے بیٹھی ہے کوئی مطالبہ نہیں کوئی درخواست نہیں کوئی پیش رفت نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں کیوں منہ بند ہے؟ ڈاکٹر فوزیہ کی اپنی بہن سے فون پر بات کرانے کے لیے بھی اُن کا منہ کھلتا ہے۔ بستر پر پڑی ماں کو اپنی بیٹی کی آواز سنوا سکتے؟ کیا اس معاملے میں عمران خان زرداری نواز شریف اور پرویز مشرف ایک پیج پر نہیں؟ اور ایک پیج پر ہی لگتے ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کو مارچ 2003ء میں اپنے بچوں کے ساتھ کراچی ائرپورٹ جاتے ہوئے غوا کیا گیا اس وقت ملک پر پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ جنہوں نے اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں اعتراف کیا کہ ان کی حکومت نے ڈاکٹر عافیہ سمیت سیکڑوں ملزم پیسوں کے عوض یا یوں ہی محض رضا کارانہ امریکا کی خدمت کرتے ہوئے اس کے حوالے کردیے۔
اُس وقت سندھ کے گورنر عشرت العباد تھے اور وزیر اعلیٰ علی محمد مہر اور انسپکٹر جنرل پولیس سید کمال شاہ تھے۔ یہ صوبائی حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے شہریوں کا دھیان رکھے۔ پولیس کسی بھی جرم کا شکار شہری کی ایف آئی آر کاٹتی ہے لیکن عافیہ کے کیس میں سب نے ہی امریکی سہولت کار کا فریضہ ادا کیا کہ ایف آئی آر کٹتے کٹتے چھ برس گزر گئے۔ عافیہ کو 2003ء مارچ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن امریکا نے 2008ء میں باقاعدہ طور پر اعتراف کیا کہ ڈاکٹر عافیہ اُن کے پاس ہے وہ بھی برطانوی صحافی ایون ریڈلے کی اُس پریس کانفرنس کے بعد کہ امریکی فوجی اڈے پر قیدی نمبر 650 دراصل عافیہ صدیقی ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے دو ہفتے بعد امریکیوں کی طرف سے اچانک اعلان کیا گیا کہ 27 جولائی 2008ء میں انہیں افغانستان کے شہر غزنی سے گرفتار کیا گیا ہے اور نیویارک کی عدالت میں اُن پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جائے گا۔
ان کا جرم گرفتاری کے وقت ایک امریکی فوجی پر حملہ قرار دیا گیا۔ گرفتاری کے وقت خود عافیہ انتہائی زخمی تھیں اور یہ زخم گولیوں کے تھے۔ امریکی ڈاکٹروں نے انہیں انتہائی زخمی اور غشی کی حالت میں یعنی مرنے کے قریب بتایا۔ عدالت میں امریکیوں نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجی پر بندوق اُٹھانے کی کوشش کی تھی۔ جس پر انہوں نے ڈاکٹر عافیہ پر گولیاں چلادیں۔ یعنی ڈاکٹر عافیہ کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ایک امریکی فوجی پر بندوق اُٹھانے کی کوشش کی، اس جھوٹے الزام کے ثبوت ناکافی تھے۔ بلکہ جو ثبوت تھے وہ ڈاکٹر عافیہ کو بے گناہ ثابت کرتے تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو 89 سال کی قید کی سزا سنادی۔ یہ سزا امریکی نظام انصاف پر ہمیشہ ایک سوالیہ نشان اور بدنما داغ کی طرح رہے گی۔ پاکستان میں حکومتیں بدلتی رہیں لیکن کسی حکومت نے عافیہ کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے عافیہ کی قید اور رہائی نہ ہونے کا سبب خود پاکستانی حکمران تھے تو غلط نہ ہوگا۔ نواز شریف جب تک حکومت سے باہر تھے تو عافیہ کو قوم کی بیٹی قرار دیتے تھے۔ اور اس کی رہائی تک چین سے نہ بیٹھنے کی باتیں کرتے تھے۔ لیکن حکومت حاصل ہونے کے بعد انہوں نے عافیہ کے معاملے میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھیں، یہاں تک کہ عافیہ کی رہائی کے لیے ایک خط تک لکھنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ اس وقت امریکی اٹارنی جنرل مشورہ دے رہے تھے کہ وقت ضائع نہ کریں اور امریکی صدر کو خط لکھ دیں لیکن نواز شریف کے پاس قوم کی بیٹی کے لیے پانچ منٹ نہ تھے کہ وہ خط لکھتے۔ انہیں بھارتی وزیراعظم کی سالگرہ کا دن یاد رہتا تھا انہیں مبارکباد اور تحائف دینا یاد رہتے لیکن عافیہ کی سالگرہ یاد رہتی نہ اس کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے۔ پھر پیپلز پارٹی کے دور میں ریمنڈ ڈیوس کے بدلے عافیہ کا مطالبہ کیا جاتا تو امریکی حکومت عافیہ کی رہائی کے لیے مجبور ہوجاتی۔ لیکن اُس موقع کو بھی گنوادیا گیا۔ نواز شریف اور زرداری کے پانچ پانچ سال گزر گئے۔ دونوں نے اقتدار کے مزے تو لوٹے لیکن قوم کی بیٹی کو بھلادیا۔ اب عمران خان کے 2 سال بھی عافیہ کی قید میں ہی گزرے۔ 23 ستمبر آکر گزر گیا یہ دن انصاف کے قتل کا دن تھا جب امریکی عدالت نے عافیہ کو 23 ستمبر 2010ء میں ناکافی ثبوت کے باوجود 86 سال کی قید کی سزا دی تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے عدالت میں سنائی جانے والی امریکی کہانی کو ناقابل یقین قرار دیا تھا۔ پرویز مشرف سے لے کر عمران خان تک کیا ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں؟ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ آج بھی عوام منتظر ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے امریکی حکومت سے مطالبہ کریں۔ قوم کی بیٹی کو رہا کرانے اور ملک واپس لانے کا وعدہ پورا کریں۔