سویلین بالادستی حقیقت یا افسانہ؟

313

کیا ملکی سسٹم پر سویلین حکمران کی بالادستی ہمیشہ ایک خواب اور سراب ہی رہے گی یا کبھی یہ خواہش حقیقت کی شکل میں سامنے آئے گی؟ یہ سوال اس وقت پھر اہمیت اختیار کر گیاجب وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے دو چونکا دینے والی باتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کہتے ہیں کہ فوج نے کارگل کا ایڈونچر انہیں اعتماد میں لیے بغیر کیا۔ اگر میرے ساتھ ایسا ہوتا تو میں آرمی چیف کو کھڑا کر استعفا لیتا۔ دوسرا یہ کہ نوازشریف کہتے ہیں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ان اسے استعفا مانگا۔ عمران خان کہتے ہیں اگر آئی ایس آئی کا سربراہ مجھے ایسا کہے گا تو میں اس کو فارغ کر دوں گا۔ عمران خان نے جو دوباتیں کی ہیں آج کے ماحول میں وہ انہونی اور ناقابل یقین معلوم ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کئی مواقع پر سول حکمران کی طرف سے استعفا مانگنے پر کسی جرنیل کے بجائے حکمران کو ہی گھر کی راہ لینا پڑی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا میاں نوازشریف کے ہی ساتھ ہوا مگر اس سے پہلے وہ ایک استعفا لینے میں کامیاب بھی ہوئے۔ انہوں نے پہلا اور آخری استعفا فوج کے سربراہ جنرل جہانگیر کرامت کا لیا اسی انداز میں اور اسی عادت سے مجبور ہو کر دوسرا استعفا لینے کی کوشش میں بارہ اکتوبر کو ان کی حکومت حادثے کا شکار ہو گئی۔ عمران خان کی بات موجودہ ماحول اور تاریخ کے پس منظر میں تصوراتی ہی لگتی ہے مگر ایسا ممکن بھی ہے۔ درست راہ کا انتخاب کیا جائے تو پاکستان کے لوگ ان مناظر سے آشنا بھی ہو سکتے ہیں۔ درست راستہ یہ ہے کہ پہلے سیاست دان اپنی جماعتوں کو خاندانی لمیٹڈ کمپنیوں کے بجائے برطانیہ کی لیبر اور کنزر ویٹو پارٹیوں کی طرح نہ سہی اس سے کم ترین درجے پر ہی خالص جمہوری اصولوں پر استوار کریں۔ باپ کے بعد بیٹا اور اس کے بعد پوتے کی سیاست چھوڑ دیں۔ بنیادی سطح پر جمہوریت متعارف کرائیں۔ اگر نچلی سطح پر انتخابات ممکن نہ ہوں تو
نامزدگیوں میں بھی اصول ضابطہ اور میرٹ اپنائیں۔ سیاسی جماعتوں میں تحقیق وتجزیے کو فروغ دیں تاکہ ان کا ورلڈ ویو فروغ پا سکے۔ سیاسی جماعتیں حکومت میں آئیں تو پھر اپنے گرد عزیز واقارب کو عہدے نواز کر ایک حصار قائم نہ کریں یا ایسے حصاروں میں عزیر واقارب کی تعداد اور تناسب کچھ کم کریں۔
طاقت سے طاقت حاصل کرنے کا طریقہ طاقت نہیں ہوتا۔ یہ رویہ جنگل کے قانون کو فروغ دیتا ہے۔ انارکی کا باعث بنتا ہے۔ خوں ریزی اور فساد کا سبب بنتا ہے۔ عرب بہار نے عرب دنیا کا جو حال کیا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جمہوریت تو کیا خاک آنی تھی عرب دنیا نامور شخصیات سے خالی ہو کر بے چہرہ حکمرانوں کے زیر نگیں ہے۔ جمہوریت چونکہ ایک پرامن مکالمے اور دلیل کا نظام ہے جس میں سب سے خطرناک ہتھیار زبان ہوتی ہے۔ اس لیے جمہوری نظام میں طاقت سے طاقت حاصل کرنے کا واحد طریقہ مدمقابل سے زیادہ برتر اخلاقی پوزیشن پر کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ اخلاقی طور پر بلند مقام پر فائز طبقے کے آگے طاقت بھی سر جھکانے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ہمارے سیاست دان نسل در نسل قیادت، سیادت اور حکمرانی کا خواب ہی آنکھوں میں نہیں سجائے رکھتے بلکہ اس کے لیے سیاسی، انتظامی، انتخابی اور مالی منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔ یوں سیاست میں ایک خانقاہی انداز رائج ہے اس سے ایک مائنڈ سیٹ بھی جنم لیتا ہے جس میں سیاسی قیادت کے گرد تقدس کا ہالہ قائم ہوتا ہے۔ ایک عام شخص کو بھی یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ فلاں قائد کے بعد قیادت کا ہما کس صاحبزادے کے سر پر بیٹھے گا بلکہ پوتوں اور نواسوں تک کی
نشاندہی بھی پہلے ہی کی جاتی ہے۔ اس لیے نسل در نسل قیادت کی منصوبہ بند ی کرنے والوں کو ہر لحاظ سے رول ماڈل نظر آناچاہیے۔ فوج کا منظر تو ہر چار پانچ سال بدل جاتا ہے۔ جو شخص ستر کے وسط میں سن ِ شعور کو پہنچا اسے آج کی سیاسی شخصیات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ فلاں کے دادا اور نانا حضور کون تھے اور سیاست میں ان کا کردار کیا تھا ان کے نظریات اور جدوجہد کیا تھی مگر کسی کو اس دور کے جرنیلوں ضیاء الحق، فیض علی چشتی، خالد محمود عارف کے پوتوں اور نواسوں کا نام بھی معلوم نہیں اس لیے کہ فوج ایک ادارہ ہے جہاں لوگ اپنا کردار اپنے متعین وقت پر ادا کرکے معاشرے کی بھیڑ میں گم ہوجاتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو ریٹائر منٹ کے بعد بھی سوا لاکھ کے ہو کر کسی ادارے میں ملازمت حاصل کرتے ہیں۔ وگرنہ اکثریت میں کوئی اسلم بیگ مضمون نگاری کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کوئی جنرل عثمانی کسی شام ایک پرانی گاڑی میں اسٹیرنگ پر سر رکھ کر جان جان آفریں کے سپرد کرکے ایک سنگل کالمی خبر کا عنوان بن جاتا ہے۔ کوئی تبلیغی جماعت کے چلوں میں مشغول ہوجاتا ہے کوئی جوان کسی بینک کے باہر نیلی وردی میں ملتا ہے تو کوئی کسی پارک میں کھانستا ہوا نظر آتا ہے۔
آپ طاقت اور اختیار کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ محض اس لیے کہ آپ نے قمیص شلوار اور پینٹ کوٹ زیب تن کر رکھا ہے اور مدمقابل کا لباس عام معاشرے سے مختلف یعنی وردی ہے۔ آپ نے کوہاٹی چپل پہنی ہے اور فریق مخالف نے بڑا اور لمبا جوتا پہنا ہوا ہے۔ ان باتوں سے عام آدمی کا لینا دینا نہیں ہوتا۔ فرق اور امتیاز اخلاقی ساکھ اور برتری کا ہوتا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں بالخصوص برسراقتدار رہنے والی اور نسل درنسل اقتدار چاہنے والی جماعتوں کو اختیار واقتدار کے حصول کے ساتھ اپنی ادائوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ جیسے تیسے کروڑوں لوگوں سے تین فی صد ووٹ لے کر ظل سبحان، جلالۃ الملک، فضیلۃ الشیخ اور امیرالمومنین بننے کی خواہش کسی طور جمہوری نہیں کہلا سکتی۔ فوج ریاست کا ماتحت ادارہ ہے جس کا سربراہ گریڈ بائیس کا ایک افسر ہوتا ہے آئین ایک بالادست دستاویز اور نظام حکومت چلانے کا ایک ضابطہ ہے۔ دنیا میں آئیڈیل جمہوریتیں کھٹ پھٹ کے ان تمام مراحل سے گزر کر اس مقام پر پہنچی ہیں جس کا سامنا ہم آج کررہے ہیں۔ پاکستان دنیا میں اپنی نوعیت کا کوئی پہلا کیس نہیں۔ جمہوریت کے لیے جمہوریت پسند بننا بھی ضروری ہے اور ٹھیٹھ جمہوری اصولوں کے تحت سامنے والی جماعتوں اور حکومتوں کے ساتھ چلنے میں فوج کو کبھی تامل نہیں ہونا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کے طلب گار اپنے تصور جمہوریت کو درست کریں۔ جمہوری کا مطلب خاندانی اور شخصی حکومت نہ ہو بلکہ عوام کی حکومت ہو۔ فوج کو متنازع بنانے اور لڑنے بھڑنے کے بجائے فوج کو ہمنوا اور معاون بنا کر ہی پاکستان میں ایک آئیڈیل جمہوری معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ کچھ کیے کرائے بغیر شیر پر سواری کا شوق روز روز کے حادثات کا باعث بنتا ہے۔