پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ

383

ایک چوہا دو ٹانگوں پر کھڑا دم اکڑائے خوشی خوشی ٹہل رہا تھا دوسرے چوہے نے پوچھا کیا بات ہے بڑے خوش نظر آرہے ہو، اس نے جواب دیا تمہیں پتا ہے جنگل سے ہتھنی کا اغوا ہو گیا ہے دوسرے چوہے نے کہا کہ اس میں تم کیوں خوش ہو رہے ہو اس چوہے نے جواب دیا ایف آئی آر میں میرا نام بھی ہے۔ ہمارے ملک میں جب بھی کوئی سیاسی اتحاد بنتا ہے اس میں چھوٹی پارٹیوں کے مزے آجاتے ہیں، ان کو اسپیس مل جاتا ہے اپنے آپ کو میڈیا میں رکھنے ایک سہارا مل جاتا ہے، ان کو ایک مصروفیت مل جاتی ہے۔ جب وہ اتحاد اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ چھوٹی پارٹیاں چوہے کی طرح دم اکڑا کر خوش ہوتی ہیں کہ اس کامیابی میں ان کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ حالانکہ ان کی پارٹی میں ان کے اپنے علاوہ کوئی اور نہیں ہوتا۔ اگر ہم پچھلے تمام اتحادوں کا تجزیہ کریں تو مضمون طویل ہو جائے گا۔ اب اسی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو لیجیے اس میں بظاہر گیارہ سیاسی جماعتیں ہیں لیکن تین چار کے سوا اور کسی سیاسی جماعت کا ہمیں نام بھی معلوم نہیں ہوگا۔
پی ڈی ایم میں تین بڑی سیاسی جماعتیں ن لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی ایف ہیں جو عوامی حمایت رکھتی ہیں۔ ان تینوں پارٹیوں کے اپنے الگ الگ منشور ہیں اپنی جماعتوںکو چلانے کے لیے دستور بھی الگ الگ ہیں۔ عمران خان کی حکومت کی مخالفت کے اسباب بھی دونوں پارٹیوں کے الگ الگ ہیں ن لیگ اور پی پی پی کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو بے پناہ دولت کمائی ہے اسے کسی طرح بچانا ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختون خوا جو ان کی سیاست کی اصل بیس تھی اور یہاں پر کسی نہ کسی شکل میں ان کی پارٹی کی حکومت بھی رہی ہے وہاں عمران خان نے زبردست ڈینٹ لگایا ہے اور اس صوبے میں مولانا کو جو شکست ہوئی ہے وہ ان سے ہضم نہیں ہو پارہی ہے۔ اسی طرح اس مرتبہ وہ خود بھی ہار گئے اب یہ دونوں چوٹیں مولانا کو بہت گہری لگی ہیں، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کی کل کی جاتی حکومت آج ہی چلی جائے، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن میں پہلے سے بھی ایک ذاتی مخاصمت چلی آرہی تھی عمران خان مولانا کو مولانا ڈیزل کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور مولانا عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے تھے۔ حالانکہ جب مولانا نے وزیر اعظم کا انتخاب لڑا تھا اس وقت عمران خان نے مولانا کو ووٹ دیا تھا۔
پی ڈی ایم میں اصلاً تو یہی تین جماعتیں اہم ہیں باقی جماعتیں تو اجلاس کی رونق بڑھانے، مشورہ دینے اور میڈیا میں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے ہوتی ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر اجلاس کے بعد جب مولانا یا کوئی اور پی ڈی ایم کا مرکزی رہنما میڈیا سے گفتگو کرتا ہے تو جناب انس نورانی صاحب مولانا کے برابر ہاتھ باندھے بڑے خشوع و خضوع سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی جماعت جمعیت علمائے پاکستان ویسے ہی دو حصوں میں منقسم ہو چکی ہے، ایک کے سربراہ یہ خود ہیں اور دوسرے کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر صاحب ہیں جو حیدرآباد سے ایم کیو ایم کے آفتاب شیخ کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ پچھلے بلدیاتی انتخاب میں دونوں گروپوں نے اپنے الگ الگ امیدوار کھڑے کیے تھے اور دونوں بری طرح ہارے تھے۔ جب تک مولانا شاہ احمد نورانی صاحب زندہ رہے جمعیت علمائے پاکستان کی ایک عوامی پوزیشن تھی مساجد میں ان کے اثرات تھے محلوں میں ان کے کارکن متحرک نظر آتے تھے لیکن دعوت اسلامی وجود میں آئی اور دوسری طرف سنی تحریک کی تشکیل ہوئی تو یوں سمجھ لیں کہ جمعیت علمائے پاکستان عملاً اندر سے کھوکھلی ہو گئی سنی تحریک تو الیکشن میں بھی حصہ لیتی رہی جبکہ دعوت اسلامی نے اپنے آپ کو تبلیغ تک محدود رکھا ہوا ہے، لیکن اب ایسا نظر آرہا ہے کہ آئندہ کسی الیکشن میں دعوت اسلامی بھی خم ٹھونک کر میدان میں آجائے اس کی وجہ یہ کہ ان کا تبلیغی نیٹ ورک خواتین میں بھی بڑا موثر ہوتا جارہا ہے ہر محلے میں خواتین کے تبلیغی اجتماعات ہوتے ہیں، خواتین گروپ کی شکل میں گھر گھر جا کر خواتین کو اپنے اجتماع میں شرکت پر آمادہ کرتی ہیں۔
اب اس سوال پر بھی غور کرلیا جائے کہ کیا پی ڈی ایم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گی اس کی مرکزی سطح پر تنظیم سازی تو ہو گئی ہے مولانا اس کے سربراہ بنائے گئے تو ن لیگ کے جناب خاقان عباسی کو جنرل سیکرٹری بنایا گیا ہے احسن اقبال نے آئندہ دو ماہ کے جلسوں کے شیدول کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کے پہلے اجلاس میں جس پروگرام کا اعلان کیا گیا اس میں جلسوں کے علاوہ ان ہائوس تبدیلی کی بات کی گئی یعنی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لے کر آنا اور اس کے بعد اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن بھی رکھا گیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر پی پی پی اور جے یو آئی میں شدید اختلاف ہے۔ پی پی پی کسی بھی صورت میں اسمبلیوں سے استعفا دینا نہیں چاہتی یوں سمجھ لیں وہ سندھ کی حکومت کسی صورت میں چھوڑنا نہیں چاہتی استعفے دینے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ صوبائی اور قومی دونوں ایوان سے استعفا دیا جائے، مولانا یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح عمران خان کی حکومت کو گرادیا جائے حالانکہ مولانا کو یہ بات یاد نہیں رہی کہ جب متحدہ مجلس عمل کی کے پی کے میں حکومت تھی کسی مسئلے پر استعفے دینے کی بات ہوئی تھی لیکن مولانا اس پر تیار نہیں ہوئے کہ اس طرح انہیں کے پی کے میں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم جلسوں کے بعد کیا پروگرام تشکیل دے گی پی پی پی اور ن لیگ دونوں کا مسئلہ یہ کے ان کے پاس ووٹرز تو ہیں لیکن سڑکوں اور چوراہوں پر تحریک چلانے والے کارکن نہیں رہے وہ زمانے لد گئے جب ان دونوں جماعتوں کے پاس ایسے جاں نثاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اب تو ان کے کارکن یہ دیکھ رہے ہیں ان کی قیادتیں تو خود مال بنانے میں لگی ہوئی ہیں اور ہمیں تحریک کے نام پر سڑکوں پر لا کر ہماری جانوں کو خطرے میں ڈالنا چاہتی ہیں۔ اب اس طرح کے اگر کچھ کارکن ہیں تو وہ مولانا کے پاس ہیں لیکن کیا مولانا اپنے جاں نثاروں کی قربانی دینے پر آمادہ ہوجائیں گے ایسا شاید ممکن نہ ہو سکے مولانا چاہتے ہیں کے تمام پارٹیاں اسمبلیوں سے استعفے دیں جب کہ ن لیگ اور پی پی پی دونوں یہ چاہتی ہیں کے سڑکوں پر تحریک چلا کر حکومت کو گرایا جائے اب دیکھنا یہ ہے کہ تینوں جماعتوں میں سے کس کی منصوبہ بندی کامیاب ہوتی ہے۔