ایغور مسلمانوں کے لیے اسلامی دنیا کیوں خاموش ہے

248

اقوام متحدہ کے 40 رکن ممالک نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنکیانگ اور تبت میں ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور احترام کرے ان ممالک نے اپنے بیان میں ہانگ کانگ کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ آزاد مبصرین کو بلا روک ٹوک ان علاقوں میں جانے کی اجازت دی جائے۔ ایغور مسلمانوں کے لیے امریکا، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر اداروں اور اب 40 ممالک کی بے چینی خاصی معنی خیز ہے اور اس سے زیادہ حیرت انگیز، او آئی سی، عرب لیگ، پاکستان، سعودی عرب، ترکی وغیرہ کے رویے ہیں۔ ایغور خالص مسلمانوں کا مسئلہ ہے اس مسئلے پر سب سے زیادہ حق اور فرض مسلمانوں کا ہے۔ جدید دور کی ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ اپنے قریب کے ملک میں قدیم مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر نہ صرف آواز اٹھائیں بلکہ اس کو روکنے کی بھرپور کوشش کریں۔ چین پاکستان میں 56 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے پاکستان کو غلام بنا لیا ہے اگر بیدار مغز حکمران ہوں تو اپنی اسی کمزوری کو اپنی طاقت بنا کر چین سے ایغور مسلمانوں پر مظالم ختم کروانے کی بات منوا سکتے ہیں۔ جس ملک کے 56 ارب ڈالر پاکستان کے راستے سے ہو کر گزرتے ہیں اسے جو فائدہ ہوگا ان منصوبوں کی تکمیل سے ہوگا اس ملک کے لیے اس رقم کو محفوظ رکھنا اور ہر رکاوٹ سے پاک رکھنا بھی ضروری ہوگا۔ اس کام کے لیے اسے ایغور مسلمانوں کو حقوق دینا ہوں گے۔ پاکستان کے لیے تو اچھا موقع ہے کہ 40 ممالک جس بیان پر متفق ہوں پاکستان بھی ان کے ساتھ ہو اور مطالبہ بھی بالکل جائز ہے۔ اگر یہ ممالک جن کا نام بھی سامنے آچکا ہے چین سے مطالبہ کر رہے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا۔ ان میں البانیہ اور بوسنیا جیسے چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں۔ پاکستان تو ایٹمی طاقت بھی ہے اور جغرافیائی اعتبار سے ہر طرح اس پوزیشن میں ہے کہ چین سے یہ مطالبہ منوا سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ سی پیک میں ایسی شرائط تسلیم کرلی گئی ہوں کہ آواز ہی نہ اٹھا سکیں۔ ایغور مسلمانوں کو آزادیاں ملیں گی تو یہ پاکستان کے لیے قوت بنیں گے۔ مستقبل کی تیاریاں ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔