اداروں کی بے توقیری کی وجوہ

152

کسی شاعر کا کیا خوب یہ مصرع ہے کہ: ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ انتظامی لحاظ سے کام کو بہترین طریقے سے سر انجام دینے اور بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے ادارے قائم کیے جاتے ہیں اس ادارے کا وہی لوگ حصّہ ہوتے ہیں جو اس کام کے ماہر ہوتے ہیں جو اس ادارے کو کرنا ہوتا ہے۔ ادارے کے تمام اراکین اگر اپنا کام بہترین طریقے سے کریں تو کام کے نتائج اچھے نکلتے ہیں۔ مل یا فیکٹری ہو تو خوب منافع ہوتا ہے اور اگر حکومتی ادارہ ہو تو اس سے ملک ترقی کرتا ہے اور عوام کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے اور ادارے کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عوام کے اندر اداروں کا اعتماد مضبوط تر ہوتا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں بھی بہت سے ادارے ہیں مگر بڑے بڑے ادارے جن میں عدلیہ، فوج، الیکشن کمیشن، تعلیم، صحت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں ہر ملک میں یہ ادارے پائے جاتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ ادارے اپنے کام کی حدود میں آزاد ہوتے ہیں ان کے کام میں کوئی دوسرا دخیل نہیں ہوتا چاہے اگرچہ دوسرا ادارہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ کئی ممالک کی مثال موجود ہے کہ جہاں کے سربراہ مملکت کو پولیس نے طلب کیا یا عدالت نے طلب کیا تو ان کو اس حکم کی پیروی کرنی پڑی۔ حتیٰ کہ ایسی مثال بھی موجود ہے کہ وہ ٹریفک کے سپاہی کے اشارے کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ اپنی آمد ورفت میں وزرائِ اعظم اور صدور عام شاہ راہوں کو بھی بند نہیں ہونے دیتے ٹریفک کی روانی حسب معمول ہوتی ہے۔ خود اسلامی تاریخ اس طرح کی عظیم مثالوں سجی ہوئی ہے۔
آج کل ہمارے ملک میں اداروں کو یہ دھن سوار ہے کہ ہم سب سے زیادہ طاقتور اور باختیار ہیں۔ اور کوئی ادارہ اپنی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینے کو تیار ہی نہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کے اندر پہلے ایک افراتفری تھی وہ تو عوامی سطح پر تھی مگر ایک افراتفری کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے اداروں کی باہمی افراتفری۔ ملک کے اندر تمام ادارے کے قیام کا مقصد صرف کام کو منظم انداز سے کرنا اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنا یا عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ اداروں کو تو ملک کے اندر اس طرح کام کرنا چاہیے تھا کہ جیسے گاڑی کا انجن۔ انجن میں شامل تمام پرزے کام کرتے ہیں کوئی پرزہ اپنی حد سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ اپنا ہی کام کرتا چلاجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے نتائج سامنے آتے ہیں اور گاڑی میں بیٹھے لوگ اپنی منزلوں پر پہنچتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ کا ادارہ قائم ہوتا ہے جس کا کام انصاف کا قیام ہے اس کی بڑی اہمیت ہے اور اس کا تقدس مملکت کے اندر مسلّم ہے۔ ہر ایک کے لیے ٹھیک ٹھیک انصاف کی فراہمی اس کا فرض ہے اسی عمل سے اس ادارے کی عزّت اور وقار ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں یہ ادارہ حکومتوں کا ماتحت ہوگیا اور با اثر افراد کی مرضی کے فیصلے دینا اور ان کے غیر آئینی اقدامات کو قانونی جواز فراہم کرنا اس نے اپنا وتیرہ بنالیا۔ اس وجہ سے پھر یہ ادارہ دوسرے اداروں کی طرح ایک غیر منظم اور بے اختیار ادارہ بن کر رہ گیا۔ اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں مگر طوالت کے خوف سے ان کو پیش نہیں کیا جارہا۔ خصوصاً جب جنرل پرویز مشرف نے عدلیہ پر دھاوا بولا تو پھر ملک کی کچھ مخلص سیاسی پارٹیوں نے اور وکلا تنظیموں نے عدلیہ کو آزاد کرانے کی تحریک کا آغاز کیا اس کا ایک منظر 12 مئی 2007 جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، تاریخی حیثیت حاصل ہے جب آزاد عدلیہ کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس کے استقبال کے لیے سیاسی جماعتیں اور وکلا کی بڑی تعداد کراچی ائر پورٹ پر جانا چاہتی تھی اور اس وقت کے بدترین آمر جنرل پرویز مشرف اور کراچی کی لسانی تنظیم ایم کیو ایم نے پورے کراچی کو لاک ڈاؤن کرکے استقبال کے شرکاء کو ان کے آئینی حق سے محروم کرنے کی کوشش کی اور لوگوں کو بدترین تشدّد کا نشانہ بنایا 50 سے زیادہ افراد شہید ہوئے۔ اس قربانی کے نتیجے میں عدلیہ کو آزاد فضاء میں سانس لینے کا موقع ملا۔ مگر پھر اس کے بعد پوری تاریخ عوام کے سامنے ہے کہ کس طرح عدلیہ کے دیے گئے فیصلوں کو ماتحت عدالتیں چیلنج کرتی رہیں، ان کو تبدیل کرتی رہیں۔ اسی طرح ملک کے تمام اداروں کی بے توقیری کا حال عوام کے سامنے عیاں ہے۔
اس کا تجربہ ان لوگوں کو بہت اچھی طرح ہوگا جن کے عزیز یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہوں اگر ان کو حکومت کو ٹیکس ادا کرنے کا گوشوارہ موصول ہوتا ہے تو وہ خوشی خوشی ٹیکس کے گوشوارے کو دیانتداری سے پر کرکے متعلقہ ادارے کو جمع کراتے ہیں۔
مگر یہاں معاملہ الٹ ہے وہی فرد جو دوسری شہریت کے لیے ٹیکس کا گوشوارہ دیانتداری سے پر کرکے جمع کرارہا ہے اب اس کو پاکستان کے ٹیکس کے گوشوارے دیانتداری سے پر کر کے جمع کرانے میں موت آرہی ہے اس لیے کہ اس کا تجربہ بتا رہا ہے کہ جہاں اس نے دیانتداری سے ٹیکس جمع کرایا ہے وہاں ادارہ دیانتداری سے اس کے نتیجے میں اس کو انصاف، صحت، تعلیم، روزگار اسی طرح کی بہت ساری سہولتیں دے گا۔ مگر یہاں ایسا کچھ نہیں عدالتوں کے چکر لگا لگا کر لوگوں کی چپلیں گھس جاتی ہے اور مرجانے کے بعد فیصلہ آتاہے، اسپتالوں کے باہر مریض ڈاکٹروں کی ہڑتال ختم ہونے تک مر جاتے ہیں، نوکریاں نہ ملنے پر نوجوان ڈگریاں جلاکر خودکشی کرلیتے ہیں۔
اداروں کو توقیر کی نگاہ سے اس وقت دیکھا جاتا ہے جب وہ اپنا کام ذمے داری سے اپنی حدود میں رہ کریں دوسرے ادارے کی حدود کا احترام کریں۔ اس کا سادہ سا فارمولہ یہ ہے کہ عزّت دو عزّت ملے گی۔