ذوالقرنین آفاقی
قبل از اسلام سیدنا ابو طلحہ انصاریؓ، عام اہل عرب کی طرح بت پرست تھے۔ بڑے اہتمام سے شراب پیتے تھے اور اس کے لیے ان کے ندیموں کی باقاعدہ ایک مجلس تھی۔
ابھی زمانہ شباب کا آغاز تھا۔ بمشکل بیس سال کی عمر ہوگی کہ آفتاب نبوت طلوع ہوا۔ سیدنا ابو طلحہؓ نے سیدنا اْم سلیمؓ (انسؓ کی والدہ ماجدہ) کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کی شرط لگا دی، جس کا اثر یہ ہوا کہ ابو طلحہؓ دین حنیف قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے اور نکاح طے پاگیا۔
یہ وہ وقت تھا، جب سیدنا مصعب بن عمیرؓ اسلام کے پر جوش شیدائی، شہر یثرب میں دین اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے۔ مدینے کا جو مختصر قافلہ بیعت کے لیے روانہ ہوا تھا، اس میں سیدنا ابو طلحہؓ بھی شامل تھے۔ اس بیعت میں سیدنا ابو طلحہؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ آپؐ نے ان کو انصار کا نقیب تجویز فرمایا۔
اسلامی مواخاۃ: بیعت عقبہ ثانیہ کے چند مہینے کے بعد خود حامل وحیؐ نے مدینے کی جانب ہجرت کا ارادہ فرمایا اور یہاں آکر مہاجرین و انصار میں اسلامی برادری قائم فرمائی۔ مہاجرین میں سے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح قریشیؓ کو سیدنا ابو طلحہ انصاریؓکا بھائی بنایا گیا تھا، جن کو ایمان کی پختگی کی بدولت دربار رسالت سے امین الامہ (امت کے سب سے بڑے امانتدار) کا خطاب عطا ہوا تھا اور جناب رسول اقدسؐ نے ان کو جنت کی بشارت سنائی تھی اور وہ عشرہ مبشرہ میں ہیں۔
غزوات میں شمولیت: غزوۂ بدر اسلام کی تاریخ کا پہلا غزوہ ہے۔ سیدنا ابو طلحہؓ نے اس میں جوش و خروش سے حصہ لیا تھا۔ بدر کے بعد غزوۂ احد ہوا۔ وہ سیدنا ابو طلحہؓ کی جانبازی کی خاص یادگار ہے۔ معرکہ اس شدت کا تھا کہ بڑے بڑے بہادروں کے قدم اکھڑ رہے تھے، لیکن سیدنا ابو طلحہؓ آپؐ کے آگے ڈھال کی صورت سینہ تانے کھڑے رہے، تاکہ آپؐ کی طرف اگر کوئی تیر آئے تو میں اس کا نشانہ بن جاؤں اور نبی اقدسؐ محفوظ رہیں۔آپؓترکش میں سے تیر نکال کر ایسا جوڑ کر مارتے کہ مشرکوں کے جسم میں پیوست ہو جاتا۔ جب آپؐ یہ تماشا دیکھنے کے لیے سر اٹھاتے تو سیدنا ابو طلحہؓ حفاظت کے لیے سامنے آجاتے اور کہتے ’’نحری دون نحرک‘‘ (میرا سینہ آپ کے سینے سے پہلے حاضر ہے) آپؐ اس جان نثاری اور سرفروشی سے خوش ہوکر فرماتے: پوری فوج میں سیدنا ابو طلحہؓ کی آواز، سو آدمی سے بہتر ہے۔
سیدنا ابو طلحہؓ نے غزوہ احد میں نہایت پامردی سے مشرکین کا مقابلہ کیا۔ آپؓ بڑے تیر انداز تھے۔ تیر پھینک پھینک کر اس دن دو تین کمانیں آپ کے ہاتھ سے ٹوٹیں۔ اس وقت آپ کے سامنے دو باتیں اہم تھیں۔ ایک مسلمان کی شکست کا خیال، دوسرے رسول اکرمؐ کی حفاظت کا مسئلہ۔ رسول اقدسؐ کی حفاظت جس ہاتھ سے کررہے تھے، وہ شل ہوگیا، مگر انہوں نے اف تک نہ کی۔
غزوۂ خیبر میں سیدنا ابو طلحہؓ کا اونٹ آپؐکے اونٹ کے بالکل برابر تھا۔ اس غزوے میں بھی وہ اس حیثیت سے نمایاں رہے۔
غزوۂ حنین میں سیدنا ابو طلحہؓ نے شجاعت کے خوب جوہر دکھائے۔ 20، 21 کافروں کو قتل کیا۔ آپؐ نے فرمایا تھا جو شخص جس آدمی کو مارے اس کے سارے اسباب کا مالک سمجھا جائے گا۔ چنانچہ سیدنا ابو طلحہؓ نے بیس اکیس آدمیوں کا سامان حصے میں حاصل کیا۔ آپؐکے غزوات میں یہ آخری غزوہ تھا جو کہ 8ھ میں واقع ہوا تھا۔
سیدنا ابو طلحہؓ کا سب سے بڑا اخلاقی جوہر حُبّ رسول تھا۔ ایسی حالت میں جبکہ تمام مسلمان جنگ کی شدت سے مجبور ہوکر میدان میں منتشر ہوگئے تھے اور رسول پاکؐ کے پاس معدودے چند صحابہ رہ گئے تھے۔ سیدنا ابو طلحہؓ کا اپنی ذات کو رسول اقدسؐ پر قربان کرنے کے لیے آگے بڑھنا اور آپ کے سامنے کھڑے ہوکر کفار کے وار سہنا، حامل نبوت پر جو تیر آئے ان کو اپنے سینے پر روکنا اور آخر اسی حالت میں اپنا ہاتھ شل کروا لینا حب رسول کا وہ لازوال نشان ہے، جو ابد تک نہیں مٹ سکتا۔اسی محبت کا اثر تھا کہ سیدنا ابو طلحہؓ آپؐ کے ساتھ خصوصیت سے تمام معرکوں میں ساتھ رہتے تھے اور ان کا اونٹ، رسول کریمؐ کے اونٹ کے برابر چلتا تھا۔ غزوئہ خیبر سے واپسی کے وقت سیدنا صفیہؓ آپؐ کے اونٹ پر سوار تھیں۔ مدینے کے قریب پہنچ کر ناقہ ٹھوکر لے کر گری۔ رسول اقدسؐ اور سیدنا صفیہؓ دونوں زمین پر آرہے۔ سیدنا ابو طلحہؓ سواری سے فوراً کود پڑے اور رسول اقدسؐ کے پاس پہنچ کر کہا:
’’خدا مجھے آپ پر قربان کرے! آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘
نبیؐ نے فرمایا: ’’مجھے چوٹ نہیں لگی، تم ذرا عورت کی خبر لو‘‘۔ سیدنا ابو طلحہؓ منہ پر رومال ڈال کر سیدنا صفیہؓ کے پاس پہنچے اور ان کو کجاوہ درست کرکے بٹھایا۔
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں دشمنوں کا کچھ خوف معلوم ہوا۔ رسول اقدسؐ سیدنا ابو طلحہؓ کے گھوڑے جس کا نام مندوب تھا‘ پر سوار ہوکر جس طرف سے اندیشہ تھا ادھر روانہ ہوئے۔ سیدنا ابو طلحہؓ پیچھے پیچھے چلے، لیکن ابھی پہنچنے نہ پائے تھے کہ آپؐ تشریف لے آئے۔ راستے میں ملاقات ہوئی۔ فرمایا وہاں کوئی دشمن نہیں ہے اور ہاں تمہارا یہ گھوڑا بہت تیز رفتار ہے۔
سیدنا ابو طلحہؓ کو آپؐ سے ایسی محبت تھی، جو ہر جگہ اور ہر کام میں اثر دکھاتی تھی، یہاں تک کہ جب ان کے گھر میں کوئی چیز آتی تو خود رسول اقدسؐ کے پاس بھیج دیتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا انسؓ ایک خرگوش پکڑ کر لائے۔ سیدنا ابو طلحہؓ نے اس کو ذبح کیا اور ایک ران آپؐ کی خدمت میں بھیج دی۔ آپؐ نے یہ معمولی، لیکن پر خلوص نذرانہ قبول فرمایا۔ اسی طرح سیدنا ام سلیمؓ نے ایک طباق میں خُرمے بھیجے۔ آپؐ نے قبول فرما کر ازواج مطہرات اور صحابہ میں تقسیم فرما دیے۔
رسول اکرمؐ بھی اس محبت کی نہایت قدر کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپؐ حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے اور منیٰ میں حلق کرایا تو سر مبارک کے داہنے طرف کے بال تو اور لوگوں میں تقسیم ہوگئے۔ بائیں طرف کے سب موئے مبارک سیدنا ابو طلحہؓ کو مرحمت فرمائے۔ سیدنا ابو طلحہؓ اس قدر خوش ہوئے کہ گویا دونوں جہاں کا خزانہ ہاتھ آگیا۔
جب آپ کے ہاں عبد اللہ نامی بیٹے پیدا ہوئے تو آپ نے ان کو آپؐ کی خدمت میں بھیجا۔ آپؐ نے کچھ کھجور چبا کر اس سے لڑکے کو گھٹی دی۔ لڑکے نے منہ سے اس آب حیات کی گھٹی لی اور کھجور کو مسوڑھے سے دبانے لگا۔ نبیؐ نے فرمایا: دیکھو انصار کو کھجوروں سے فطری طور پر محبت ہے۔ اس لڑکے کا نام آپؐ نے عبداللہ رکھا۔ رسول اکرمؐ کے لعاب مبارک کا یہ اثر تھا کہ سیدنا عبد اللہؓ تمام نوجوان انصار پر فوقیت رکھتے تھے۔