سلام کو عام کریں…

147

مولانا محمد نجیب قاسمی
اللہ تعالیٰ نے انسان کا مزاج ایسا بنایا ہے کہ وہ دوسرے انسان سے ملاقات کے وقت محبت کے پیغام پر مشتمل کوئی جملہ دوسرے شخص کو مانوس وخوش کرنے کے لیے کہتا ہے۔ مثلاً ہندو ملاقات کے وقت نمستے یا نمسکار کہتے ہیں، کچھ ہندو رام رام کہتے ہیں اور انگریزی داں طبقہ گڈمارننگ، گڈ ایونگ اور گڈ نائٹ جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ نبی اکرمؐ کی بعثت سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی ملاقات کے وقت مبارک بادی کے کلمات کہنے کا رواج تھا۔ لیکن جب مذہب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم پر آپؐ نے ملاقات کے وقت السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کا طریقہ جاری فرمایا۔ اس کے معنی ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو۔ اِن کلمات سے نہ صرف محبت کاپیغام دوسرے کو پہنچتا ہے، بلکہ یہ بہت جامع دعا بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو تمام بری چیزوں، بلاؤں، آفتوں، مصیبتوں اور تکلیفوں سے محفوظ اور سلامت رکھے، پھر سلام کرنے والا سلامتی کی اس دعا کے ضمن میں گویا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ تم خود بھی مجھ سے سلامت ہو میرے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے۔
قرآن وحدیث میں بار بار سلام کرنے کی تعلیم وترغیب دی گئی ہے۔ اختصار کے مد نظر صرف دو آیات کا ترجمہ پیش ہے: پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے نفسوں کو سلام کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے، مبارک اور پاکیزہ۔ (سورۃ النور) جب تمہیں تحفۂ سلام دیا جائے تو تم اس کو سلام دو اْس سے بہتر یا اسی کو لوٹا دو۔ (سورۃ النساء) یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں یا کم از کم انہیں الفاظ کے ساتھ سلام کا جواب دو۔
سلام کی اہمیت اور فضیلت کے متعلق متعدد احادیث بھی کتب حدیث میں موجود ہیں۔ صرف دو احادیث پیش کررہا ہوں۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: تم جنت میں نہیں جاسکتے جب تک ایمان نہ لاؤ اور تم ایمان والے نہیں جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلادوں کہ جب تم اس کو اختیار کرو تو باہمی محبت پیدا ہوجائے؟ (اور وہ اہم بات یہ ہے کہ) اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ۔ (مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت کے حصول کے لیے سلام کرنے میں سبقت کرنی چاہیے۔
ایک شخص نے رسول اللہؐ سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات سب سے اچھی ہے؟ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: تم کھانا کھلاؤ اور دوسروں کو سلام کرو، خواہ اْن کو پہنچانتے ہو یا نہیں۔ (بخاری ومسلم) یعنی ہر شخص کو سلام کرنا چاہیے۔
سلام کرنے کے بعض احکام
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ گڈمارننگ، گڈ ایونگ اور گڈ نائٹ کی طرح صرف الفاظ کا نام نہیں، بلکہ آپس میں محبت اور تعلق پیدا کرنے کا اچھا عمل ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بہترین دعا بھی ہے۔ اسلام میں سلام کرنے کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں جہاں ہر عمل کے احکام وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہیں سلام کرنے کے بھی احکام وآداب بیان کیے گیے ہیں، مثلاً: سلام کرنا سنت ہے، مگر اس کا جواب دینا واجب ہے۔ سلام اور اس کا جواب اچھی نیت کے ساتھ سنت کے مطابق جمع کے صیغے کے ساتھ دیا جائے، اگر چہ مخاطب ایک شخص ہی کیوں نہ ہو، تاکہ فرشتے (کراماً کاتبین) جو ہر ایک کے ساتھ ہیں، سلام میں مخاطب کے ساتھ شامل ہوں اور ان کو سلام کرنے کا بھی ثواب مل جائے اور پھر جب وہ سلام کا جواب دیں تو ان کی دعا بھی ہمیں مل جائے۔ اسی طرح سوار شخص پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں، یہ حکم صرف تواضع وانکساری کی طرف راغب کرنے کے لیے ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر یہ لوگ سلام نہ کریں تو ہم پہل بھی نہ کریں، بلکہ ہم سلام میں پہل کرکے زیادہ ثواب کے حق دار بن جائیں۔ نیز حدیث میں وارد ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا (اس عمل کی وجہ سے) تکبر سے پاک ہے۔ (شعب الایمان) تکبر کا بہترین علاج یہ بھی ہے کہ ہر ملنے والے مسلمان کو سلام کرنے میں سبقت کی جائے۔ نیز ہم آپس میں ملاقات کے وقت بات چیت اور گفتگو سے قبل سلام کریں۔ عصر حاضر میں ٹیلیفون اور موبائل بھی ملاقات کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے سلام کرنے کا جو حکم آپسی ملاقات کا ہے وہی فون کرتے اور اٹھاتے وقت کا ہوگا، لہٰذا ہیلو کے بجائے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنا بہتر ہوگا۔ بعض مواقع اور حالتیں سلام سے مستثنیٰ ہیں، اس سلسلے میں فقہائِ کرام کی تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ چند صورتوں اور حالتوں میں سلام نہیں کرنا چاہیے۔ جب کوئی اطاعت میں مشغول ہو، مثلاً نماز، ذکر، دعا، تلاوت، اذان واقامت، خطبہ یا کسی دینی مجلس کے وقت۔ جب کوئی بشری حاجت میں مشغول ہو، مثلاً کھانے پینے، سونے اور پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت۔ جب کوئی معصیت میں مشغول ہو، مثلاً شراب پی رہا ہو، تو اس موقع پر سلام نہیں کرنا چاہیے۔