مہنگائی کی انتہا، حکومت کو اقتدار کی فکر

301

ہر گزرتا دن عوام کی خدمت میں حکومت کی بدترین ناکامی کا ثبوت دے رہا ہے۔ تحریک انصاف کو برسر اقتدار آئے 2 سال سے زائد ہوچکے ہیں، لیکن سرکاری اداروں سے نجی شعبوں تک حکومت کی کوئی گرفت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہفتے کے دوران مزید 24 اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے، جب کہ مہنگائی کی مجموعی شرح 1.24 فی صد بڑھ گئی ہے۔ مہنگی ہونے والی اشیا آٹا، ٹوٹا چاول، مسور کی دال، چنا، خوردنی تیل، ٹماٹر، انڈا، پیاز، لہسن، دودھ، دہی، خشک دودھ، مرغی کا گوشت، گائے کا گوشت، بکرے کا گوشت، کپڑے دھونے کا صابن اور ایل پی جی کے سلنڈر ہیں، جن کا تعلق غریبوں سمیت ہر شہری سے براہِ راست ہے۔ مہنگائی کا یہ نہ تھمنے والا طوفان حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں اور عوام کی فلاح وبہبود میں عدم دلچسپی کے باعث برپا ہے، کیوں کہ حکومت پہلے دن سے نام نہاد احتساب کی ڈگڈگی بجانے اور اپنے وزیروں ومشیروں کو اس پر رقصاں کرنے میں مصروف ہے۔ رہی سہی کسر حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کے خلاف متحدہ تحریک کے اعلان نے پوری کردی ہے۔ صبح 9 بجے سے کابینہ کے ارکان اس کے خلاف پریس کانفرنسیں شروع کرتے ہیں، تو شام کو جاکر ہی بیان بازی کا یہ سلسلہ تھمتا ہے۔ اس دوران وزرا کو اپنی اور اپنے ماتحتوں کی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں بروکار لاتے ہوئے حزب اختلاف کے خلاف ہر روز نیا مسالہ تیار کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ پریس کانفرنسیں اور ان کی تیاری وزرا ومشیروں کا سارا وقت لے جاتی ہے، ایسے میں انہیں عوام کی خدمت کرنے یا ان کی ضروریات سے متعلق سوچنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ لیکن یہ روش صرف ارکانِ کابینہ ہی کی نہیں، بلکہ وزیراعظم عمران خان خود بھی اپنی تمام تر توجہ حزبِ اختلاف پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، اور اگر یہ کہا جائے کہ وزرا اور مشیر یہ پریس کانفرنسیں انہی کے ایما پر کررہے ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔ جمعہ کے روز کنونش سینٹر اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران بھی وزیراعظم کے اعصاب پر حزبِ اختلاف اور سابق وزیراعظم نواز شریف ہی سوار رہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’اپوزیشن جتنے مرضی جلسے جلوس کر لے، عمران خان کو بلیک میل کرنے کا خواب دیکھنے والے ناکام ہوں گے‘‘۔ شاید وہ یہ سب کچھ اپنے تلخ تجربے کی روشنی میں کہہ رہے تھے، کیوں کہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر 126 دن تک جاری رہنے والا ان کا سیاسی شو بری طرح ناکام ہوا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حزب اختلاف نے انہیں فکرمند ضرور کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ایک ایسی بات کردی ہے، جس سے ملک کے عسکری ادارے براہِ راست نشانہ بنتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’’مجھے فوج سے کیوں کوئی مسئلہ نہیں۔ فوج نے ہر جگہ ہماری مدد کی۔ فوج تمام چوروں کو جانتی ہے۔ آئی ایس آئی کو کمیشن لینے اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کا پتا ہوتا ہے‘‘۔ وزیراعظم کا ملک کے سب سے بڑے خفیہ ادارے سے متعلق یہ کہنا کہ وہ سیاست دانوں اور اشرافیہ کی خبر رکھتا ہے، اس پر اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کا الزام لگانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وزیراعظم نے جو باتیں کیں وہ حیران کن ہیں۔ ایسی باتیںکبھی زندگی میں نہیں سنیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی چوری پکڑتی ہے۔ آئی ایس آئی کائونٹر انٹیلی جنس کا پریمیم ادارہ ہے۔ اس کا ملک کے اندرونی معاملات سے تعلق نہیں ہوتا۔ اگر وزیراعظم کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ملک کے اندرونی معاملات بھی چلاتی ہے، تو اس پر بحث ہونی چاہیے۔ آئی ایس آئی وہ ادارہ ہے جسے عوامی بحث میں نہیں لایا جاتا۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم نے اپنا حلف نہیں پڑھا۔ عمران خان اپنا اقتدار بچانے کے لیے ہر قسم کی باتیں کرنے کو تیار ہیں‘‘۔ وزیراعظم کا یہ غیرمحتاط بیان فوج کے مبینہ سیاسی کردار پر پہلے سے جاری بحث میں جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔ شاید بولتے ہوئے وزیراعظم کی زبان پھسل گئی یا وہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی بحثیں شروع کراکر خود پر سے دبائو کم کرنے میں کامیاب رہیں گے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ وہ اس سب تماشے سے کیا حاصل کرلیں گے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اس سیاسی گرماگرمی میں کچھ توجہ عوامی مسائل کی جانب مبذول کریں، تاکہ مہنگائی اور حکومتی خدمات کی عدم دستیابی سے پریشان عوام کہیں حزبِ اختلاف کی تحریک میں شامل ہوکر حکومت پر ناقابل برداشت دبائو نہ ڈال دیں۔