امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرسمس تک افغانستان سے فوج نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ:
we should have the small remaining number of our BRAVE Men and women serving in Afghanistan home by Christmas!
افغانستان میں ہمارے بہادر (افواج) مرد اور خواتین کرسمس تک کے گھر (امریکا) میں ہوں گے۔ وہاں چھوٹی سی (فوج) ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ ’’افغان طالبان‘‘ سے طے کیے گئے معاہدے میں امریکا نے 2021ء کے وسط تک تمام فوجی افغانستان سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔ کورونا وائرس میں مبتلا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ ’’کرسمس‘‘ تک افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کی خواہش کا اظہار کر کے امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کی ٹائم لائن دے دی۔ افغان طالبان نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے طالبان کا یہی کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام ِ امن کے لیے ضروری ہے کہ وہاں سے تمام غیر ملکی افواج فوری طور پر نکل جائیں۔ اس کے بعد ہم خود افغانستان کے مسائل حل کر لیں گے۔ اس سلسلے میں الجزیرہ ٹی وی کا کہنا ہے کہ: ’’ٹرمپ کا کہنا ہے کہ: کرسمس تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کوگھروں (امریکا) میں ہونا چاہیے‘‘۔ اسی طرح دنیا بھر کے اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا اور اس پر تبصروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ اب افغانستان میں کون حکومت کرے گا۔ اس سلسلے میں بلوم برگ کا کہنا ہے کہ:’’طالبان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے کہ وہ کرسمس تک جنگ سے متاثرہ افغانستان سے باقی تمام امریکی افواج کا انخلا کرنا چاہیں گے‘‘۔
یہ ہے امریکا کی شکست کا اعلان کہ امریکا اب کسی صورت میں اپنی افواج کو ایک ایسی جنگ کے حوالے نہیں کر سکتا جس میں 20برسوں بعد بھی شکست کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ افغانستان میں جنگ 2001 سے اب تک چل رہی ہے۔ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد امریکا نے طالبان کے عملداری والے افغان علاقوں پر چڑھائی کر دی تھی۔ امریکا کا مقصد القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری تھا۔ اس نے طالبان کو تو کچھ ہی مہینوں میں شکست دے دی لیکن اسامہ بن لادن کو گرفتار نہیں کر سکا۔ گو کہ ابھی افغانستان میں کوئی وسیع جنگ تو نہیں چل رہی پر ناٹو کی افواج بدستور وہاں طالبان کی گوریلا کارروائیوں سے نبٹنے کے لیے موجود ہیں۔ اس جنگ کے پیچھے امریکا کا ایک اہم مقصد (11 ستمبر 2001ء سے اکتوبر 2020ء) یہ تھا کہ وہ افغان طالبان کی اسلامی حکومت افغانستان سے ہٹا دے اور یہ مقصد پورا نہیں ہوا اور اب جب افغانستان سے امریکا بے آبرو ہو کر جارہا ہے طالبان سے معاہدہ کر کے اس کی اجازت سے جارہا ہے اور جہاں تک بات ہے طالبان حکومت کی تو افغانستان کی بقا اور سلامتی اور قیام ِ امن کے لیے اب طالبان حکومت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
امریکا نے افغانستان پر اکتوبر 2001 میں حملہ کیا تھا۔ یہ حملہ طالبان پر اس الزام کے ساتھ کیا گیا تھا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی سینئر قیادت کی نائن الیون حملے میں مدد کی تھی۔ امریکا نے طالبان کا اقتدار ختم کیا جس کے بعد ملک بھر میں مزاحمت کا آغاز ہوا۔ امریکی فوجی دستوں کی تعداد بڑھ گئی اور واشنگٹن نے اربوں ڈالر طالبان سے لڑنے اور تعمیر نو کے فنڈ میں لگائے۔ امریکی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق 2011 سے 2012 کے درمیان وہ وقت آیا جب افغانستان میں امریکا کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی موجود تھے اور سالانہ خرچ 100 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ لیکن پھر امریکی فوج نے اپنے جارحانہ آپریشنز سے ہٹ کر اپنی توجہ افغان فوج کی تربیت پر مرکوز کی اور اس کے بعد 2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ خرچ 40 ارب ڈالرکے قریب رہ گئے۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق افغانستان میں اکتوبر 2001 سے مارچ 2019 تک فوجی اخراجات 760 ارب ڈالر تھے۔ یہ افغان صدر کی جانب سے دیے جانے والے اعداد وشمار سے نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ لیکن ایک آزاد تحقیق میں جو براؤن یونیورسٹی کی جانب سے جنگی اخراجات کے حوالے سے کی گئی ہے، یہ کہا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے افغان جنگ کے اخراجات کو بہت کم کر کے بیان کیا گیا ہے۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق امریکا نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے گزشتہ 17 برسوں میں 133 ارب ڈالر لگائے جو کل لاگت کا 16 فی صد ہے۔
2017 میں افغانستان میں تعمیر نو کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے نے بتایا کہ گزشتہ 11 برس میں ساڑھے پندرہ ارب ڈالر فراڈ اور خورد برد کی نذر ہوئے اور اس میں کچھ رقم ضائع بھی ہوئی۔ طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز 2001 میں ہوا۔ امریکی فوج کا اس میں 2300 جانوں کا نقصان ہوا اس میں ساڑھے بیس ہزار فوجی زخمی ہوئے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جون 2018 تک 14 ہزار امریکی اہلکار اورگیارہ ہزار افغان شہری تھے۔
صدر اشرف غنی نے رواں برس کہا تھا کہ افغان فورسز کے 45 ہزار ارکان 2014 سے اب تک جان گنوا چکے ہیں۔ صدر غنی کی جانب سے ہلاکتوں کی تعداد بتانا بہت حد تک درست نہیں لیکن کچھ نہ کچھ تو ٹھیک بھی ہوگا۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد حالیہ برسوں میں بہت زیادہ رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی اوسط تعداد 30 سے 50 رہی ہے اب اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
سابق صدر سردار فاروق لغاری نے امریکا کی سابق سیکرٹری میڈلین البرائیڈ کے پاکستان کے دورے کے دوران ملاقات میں معلوم کیا کہ سویت یونین سے جنگ ختم ہوتے ہی امریکا افغانستان سے فوری طور پر ایسا غائب ہوا کہ اس کا یہاں سے کوئی تعلق تھا نہیں جس کے جواب میں میڈلین البرائیڈ نے کہا کہ امریکا کی مخالفت اور حمایت صرف امریکا کے مفاد کے لیے ہوتی ہے۔ اوپر کے اخراجات اور امریکا کی ہلاکتوں کی تفصیل کے بعد کسی کو شکست کے داغ کے ساتھ واپس جانا کسی سانحہ سے کم نہیں لیکن امریکا کا افغانستان میںہر طر ح کا مفاد ختم ہو چکا اس لیے وہ فوری واپس جا رہا ہے اور اشرف غنی، رشید دوستم، اور عبداللہ عبداللہ جو 20برسوں سے امریکا کا ورد کرتے رہے ہیں ان کیا حشر ہو گا اس سے امریکا کوئی سروکار نہیں ہے۔