ڈاکٹر عادل کا افسوسناک قتل

215

پاکستان میں مسلسل فرقہ وارانہ تصادم کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تازہ ترین واردات میں جامعہ فاروقیہ کے مہتمم ڈاکٹر عادل خان کی شہادت ہے انہیں شاہ فیصل کالونی میں ڈرائیور سمیت شہید کر دیا گیا۔ ڈاکٹر عادل کو تعاقب کرکے قتل کیا گیا۔ واقعے میں ان کا بیٹا خوش قسمتی سے دکان میں ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔ ڈاکٹر عادل کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ پاکستان میں مسلکی اختلافات ختم کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ بریلوی مسلک کے اہم عالم اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن کے ساتھ مل کر ملکی اختلافات کے خاتمے کے منصوبے پر کام کر رہے تھے اور کافی کام کر چکے تھے۔ اس قتل سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں ملکی ہم آہنگی اور فرقہ واریت کے خاتمے سے کس کو تکلیف ہے۔ ڈاکٹر عادل ملکی اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ مفتی نظام الدین شامزئی امریکی تسلط کے خلاف بیان دینے پر قتل ہوئے۔ مولانا یوسف لدھیانوی اپنے ملک کے لیے جدوجہد کرنے پر قتل کیے گئے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران درجنوں ممتاز علمائے کراچی کو سر عام قتل کیا گیا لیکن سیاستدانوں کی جاسوسی کرنے والے خفیہ ادارے ان میں سے کسی کے قاتل کو پکڑنے میں بھی ناکام رہے۔ یہاں معاملہ صرف سنی یا اہلسنت علما کا نہیں ہے بلکہ جس وقت متحدہ مجلس عمل ملک میں اتحاد امت کا کام کر رہی تھی اس وقت اس کے اہم رکن شیعہ رہنما علامہ حسن الترابی کو بھی مفتی شامزئی کے قتل کے چند دن بعد قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ اس نکتے پر پہنچ گئے تھے کہ مفتی شامزئی کے قاتل وہی لوگ تھے جنہوں نے اگلے روز نمائش پر شیعوں کی مسجد امام باگارہ پر دھماکا کیا تھا۔ انہوں نے برملا کہا تھا کہ آج کا حملہ کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے مفتی شامزئی کو قتل کیا ہے اور ملک میں کوئی شیعہ سنی جھگڑا نہیں ہے۔ آج پھر وہی 9 ایم ایم استعمال ہوا ہے جو 80 شیعہ اور سنی افراد کے قتل میں استعمال ہوتا رہا ہے اور بسا اوقات تو ایک ہی پستول سے شیعہ اور سنی دونوں قتل ہوئے۔ یہ رپورٹ بھی سرکار کے پاس محفوظ ہے۔ اگر حکومت علما کے قاتلوں کو نہیں پکڑے گی تو فرقہ واریت اور بدامنی پھیلانے والوں کی ہمت افزائی ہی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ کسی قسم کی بدامنی سے قبل ڈاکٹر عادل خان کے قاتلوں کو گرفتار کرے اس سے قتل کی گزشتہ وارداتوں کا سرا بھی مل جائے گا۔