دو ایسے اقدامات جو پاکستان کو بدل سکتے ہیں

307

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے تشدد، عصمت دری اور قتل کے دل دہلانے والے واقعات نے ہر پاکستانی کی روح کو مجروح کردیا ہے۔ واضح طور پر ریاست، پولیس اور اس کے متعدد گھوسٹ کمیشن، بیورو اور اتھارٹیز، اجتماعی طور پر اپنا بنیادی کام یعنی ایسا ماحول پیدا کرنا، جو شہریوں کی زندگی اور عزت کو محفوظ رکھے، انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ وحشیانہ واقعات بڑھتے چلے جارہے ہیں، اکثر ان واقعات میں وہی مجرم ملوث ہوتے ہیں، جو پہلے بھی اسی طرح کے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ یہ اس بات کا بھی ناقابل تردید ثبوت ہے کہ ریاست اور معاشرے کی طرف سے ہمارا موجودہ رد عمل سراسر غیر متعلقہ اور غیر مددگار ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غیر منصفانہ نہیں ہوسکتا ہے کہ 73 سال سے خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور استیصال نے ہمیں بالکل کچھ نہیں سکھایا۔ ہر نئے واقعے کے بعد اسی طرح کے مذموم بیانات اور وہی پرانے وعدے ہوتے ہیں۔ ہم معاشرتی طور پر کچھ سیکھنے اور تبدیل کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس مردہ اور غیر فعال نظام کی اصلاح یا بحالی کے لیے اب تک کچھ نہیں کیا۔ تاہم اس مضمون کا مقصد مایوسی پھیلانا اور مایوس ہونے کا مشورہ دینا نہیں ہے۔ اس کے برعکس، یہ امید کا دیا جلانے اور امید پرستی کا مشورہ دینا ہے۔ صرف دو بنیادی اقدامات پر عمل درآمد کرلیا جائے تو عام پاکستانی شہریوں اور خاص طور پر خواتین اور بچوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے ایک وسیع تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
سب سے پہلے، پاکستان کو ایک ہی ملک گیر ہیلپ لائن قائم کرنا چاہیے اور موجودہ غیر ذمے دارانہ، غیر مددگار اور کاسمیٹک ہیلپ لائنوں کی بہتات کو ختم کرنا چاہیے اور اس کی جگہ ملک بھر میں کسی ایک نمبر کو استعمال کرنا چاہیے۔ ذرا سندھ میں ایمرجنسی نمبروں کی نہ ختم ہونے والی فہرست پر غور کریں۔ پولیس کے لیے 15، رینجرز کے لیے 1101، سی پی ایل سی کے لیے 1102، سندھ چائلڈ پروٹیکشن کے لیے 1121، رہنما کے لیے 1915، فائر بریگیڈ کے 16، ایدھی کے لیے 115، چھیپا کے لیے 1020، امن فاؤنڈیشن کے 1021 موٹر وے پولیس کے لیے 130، حکومت سندھ کے لیے 1093، آئی جی پی سندھ کے لیے 9110، انصار برنی کے لیے 32623382 اور روشنی ہیلپ لائن کے لیے 1138۔ اس سلسلے میں پنجاب کسی طرح پیچھے نہیں ہے، پنجاب کی اپنی ویب سائٹ پر 36 ہیلپ لائنز کا ذکر ہے۔ عملی سطح پر، میں ابھی تک سڑک پر کسی ایک ایسے شخص سے نہیں مل سکا۔ جسے ہیلپ لائنوں میں سے کسی کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں زیادتی اور بدسلوکی کے زیادہ تر واقعات میں ان ہنگامی ہیلپ لائین میں سے کسی تک رسائی حاصل نہیں کی گئی۔ ان واقعات میں چھ سالہ مروہ کا کیس بھی شامل ہے جسے 4 ستمبر کو کراچی میں اغوا کیا گیا، اور زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔
پاکستان 73 برسوں سے اس بے راہ روی کے گرداب میں کیوں زندگی گزار رہا ہے؟ اس طرح کے مسائل سے امیروں کی مدد ہوتی ہے (کیونکہ ان کے پاس ہر صورتحال کے لیے ’بائی پاس‘ کرنے کا موقع ہوتا ہے) اور اس میں غریبوں کا استیصال ہوتا ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر ایک ہی ملک گیر، تین ہندسوں والی ہیلپ لائن شروع کرنی چاہیے۔ جو آپ کو سیدھی ایمرجنسی سروسز یعنی پولیس، ایمبولینس اور فائر بریگیڈ تک پہنچائے گی۔ ہر کال کو آسانی سے قومی ڈیٹا بیس پر لاگ کیا جاسکتا کہ کس وقت پولیس، ایمبولینس یا فائر بریگیڈ کو کال کیا گیا اور وہ کس وقت وہاں پہنچی۔ اس طرح کی ہیلپ لائن اور ڈیٹا بیس بھی زینب الرٹ ایکٹ کا تقاضا تھا، جس کا نفاذ ابھی تک بیوکریسی کے حلق کا کانٹا بنا ہوا ہے، اور اب تک اس پر عمل نہیں ہوا ہے۔
اگر پورے شمالی امریکا کے لیے 911 اور پورے یوروپی یونین کے لیے ایک ہی ایمرجنسی ہیلپ لائن ہوسکتی ہے تو، پاکستان کو اس کے اپنے ’911‘ کے استعمال سے کون روک رہا ہے؟ دوسرا مرحلہ جو پاکستان کوتبدیل کرسکتا ہے وہ ایک ایسا نظام متعارف کروانا ہے جس کے تحت کسی شہری کو مقدمہ کی اطلاع دینے یا ایف آئی آر درج کرنے کے لیے پولیس اسٹیشن کا دورہ کرنے کی ضرورت نہیں ہو۔ اس کے بجائے، شہریوں کو یہ سہولت ہو کہ وہ ملک بھر میں صرف تین ہندسوں والے ایمرجنسی ہیلپ لائن نمبر ڈائل کریں۔ جس کے بعد پولیس کا کام فوری طور پر شکایت کنندہ تک پہنچنا، صورتحال کا جائزہ لینا، مشاہدات کرنا، انٹرویو کرنا، تصویر کھنچوانا، شواہد اکٹھا کرنا اور مطلوبہ فارم اور رپورٹیں مکمل کرنا ہو۔ اس طرح کی تمام اطلاعات کو کمپیوٹرائزڈ اور مستقل ریکارڈ کے طور پر مرکزی ڈیٹا بیس پر رکھنا چاہیے۔
پاکستان اس دن ہزاروں میل مزید ترقی کرے گا جب ہر بچہ، عورت، مزدور، چوکیدار، بڑھئی یا ہاری ایک ہنگامی ہیلپ لائن نمبر ڈائل کرسکے گا، پولیس کو کال کرسکے گا اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے بیوروکریٹ، صنعت کار یا وڈیرہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرا سکے گا۔