یوم یکجہتی کراچی

174

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے 14اکتوبر کو پورے ملک میں یوم یکجہتی کراچی منانے کا اعلان کیا ہے۔ امیر جماعت نے بروقت یہ فیصلہ کیا ہے کہ کراچی منی پاکستان ہے، یہاں پاکستان کے ہر صوبے، شہر اور گائوں کے لوگ رہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ بھارت سے آنے والے مہاجرین کی بہت بڑی اکثریت نے کراچی کا رخ کیا اور اسی شہر کو اپنا مسکن بنایا، جب کہ بہت سارے مہاجرین پنجاب اور کے پی کے میں بھی آباد ہوئے، کراچی میں مہاجرین کی آباد کاری کے لیے حکومت نے محدود وسائل کے باوجود ہنگامی بنیادوں پر کام کیا، ہندوستان سے جو لٹے پٹے مہاجرین آئے وہ کراچی میں اے بی سینیالائن اس سے متصل سلور کوارٹرز شہر کے مختلف علاقوں میں بس گئے پھر حکومت نے لیاقت آباد جس کا پرانا نام لالوکھیت تھا وہاں پر 90گز کے پلاٹ پر ایک کمرہ بنا کر ہزاروں کی تعداد میں اے بی سینیا لائن اور شہر کے مختلف علاقوں سے مہاجروں کو لا کر بسایا۔ اسی کے ساتھ ہی ناظم آباد اور گلبہار (گولی مار) آباد ہوئے اس کے کچھ عرصے بعد لانڈھی، کورنگی، ملیر، سعودآباد، کھوکھراپار، شاہ فیصل کالونی (ڈرگ روڈ) اور نیو کراچی آباد ہوئے 1960تک شہر کراچی میں 80فی صد آبادی مہاجرین یعنی اردو بولنے والوں کی تھی لیاری، کیماڑی اور اس سے متصل آبادیوں میں مقامی لوگ قیام پاکستان سے پہلے سے رہ رہے تھے، اس وقت کراچی کی حدود کیماڑی سے نمائش تک تھی۔
1960 کے بعد سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ بہت کم ہوچکا تھا، البتہ اندرون ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں بہت بڑی تعداد میں کراچی آئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ کراچی ایک غریب پرور شہر ہے اس شہر نے اپنے یہاں آنے والے ہر فرد کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔ آج کراچی میں ملک کے ہر صوبے شہر اور علاقے کے لوگ پائے جاتے ہیں، آج بھی کراچی میں اردو بولنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، لیکن پختون بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں، ایک رائے یہ بھی ہے کہ پشاور سے زیادہ پختون کراچی میں رہتے ہیں۔ پچھلے پانچ چھ سال سے سرائیکیوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے جو مختلف آبادیوں ضم ہو گئے ہیں پٹھان ہوں یا سرائیکی یہ سب محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ لیکن کراچی کے ساتھ پہلے وفاقی حکومت نے دارالحکومت کی تبدیلی کرکے اہل کراچی کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی، ملک کا مرکز ہونے کی وجہ سے کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے مواقع بہت زیادہ تھے جو اس فیصلے کی وجہ سے ان کے لیے ختم ہوگئے۔ ہندوستان سے جو لٹے پٹے مہاجر پاکستان آئے انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا خود بھوکے رہ کر اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کیں، پھر یہی پڑھے لکھے نوجوان ملک کی بیوروکریسی میں گئے مختلف سرکاری اداروں میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اعلیٰ مناصب پر فائز ہوئے۔
دارالحکومت کی تبدیلی کے بعد کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اس طرح کچھ آنسو پچھ رہے تھے کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں میں جارہے تھے کہ 1972میں یعنی سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب بھٹو وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ایک منصوبے کے تحت صوبہ سندھ میں شہری اور دیہی کوٹا سسٹم متعارف کروایا کہ صوبے کی سرکاری اداروں میں ساٹھ فی صد دیہی علاقوں سے اور چالیس فی صد شہری علاقوں سے لوگ لیے جائیں گے اور مرکزی کوٹا سندھ کے شہری علاقوں کے لیے صرف دو فی صد تھا اس لیے اس زمانے میں ملازمتوں کے جتنے اشتہارات اخبارات میں شائع ہوتے تھے اس میں واضح طور پر لکھا ہوتا تھا کراچی حیدرآباد اور سکھر کے لوگ درخواستیں نہ دیں اس نوٹ سے شہری نوجوانوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی یہ ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ہم بھی اسی دور میں سرکاری ملازمت کے لیے تگ و دو کررہے تھے۔ صوبہ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میںاس طرح کی کوئی تقسیم نہیں ہے وہاں صوبے کے ہر شہر اور دیہات کے نوجوان میرٹ کی بنیاد پر ملازمتیں حاصل کررہے ہیں یہ تقسیم صرف صوبہ سندھ میں ہے جس کی وجہ سے شہری نوجوانوں میں احساس محرومی کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ پی پی پی کے نافذ کردہ کوٹا سسٹم کی وجہ مہاجر نوجوانوں کا جو استیصال ہورہا تھا اس نے آگے جاکر ایک خوفناک شکل اختیار کرنا تھی۔
جب ملک میں پی پی پی کی حکومت ختم ہوئی اور جنرل ضیاء نے مارشل لا نافذ کیا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر ایک سندھی وزیراعظم کو پھانسی دی تو وہ صوبہ سندھ میں کوٹا سسٹم کو ختم کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ بلکہ اس کوٹا سسٹم سے انہوں نے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ اس کے نتیجے میں شہری نوجوانوں میں جو احساس محرومی پیدا ہورہی تھی اس نے آگے جا کر ایم کیو ایم کی شکل اختیار کی جنرل ضیاء نے ایم کیو ایم کو تشدد کی کھلی چھوٹ دی وہ چونکہ سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں جماعت اسلامی کو پیچھے کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے ایم کیو ایم کی بھر پور سرپرستی کی۔ اب ایم کیو ایم نے کیا گل کھلائے یہ ہمارے مضمون کا اصل موضوع نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب صوبے میں میرٹ کا قتل عام ہوا تو سرکاری محکموں میں نااہل لوگوں کی اکثریت ہو گئی ایم کیو ایم نے اسی نااہلیت کو اور آگے بڑھایا جس کے نتیجے میں سرکاری اداروں بالخصوص بلدیاتی اداروں میں عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھنے لگے۔ جب شہر میں بلدیہ جماعت اسلامی کے پاس ہوتی اس وقت شہر کے مسائل تیزی سے حل ہوتے ہوئے نظر آتے۔ دو مرتبہ افغانی صاحب اور ایک مرتبہ نعمت اللہ خان میئر کراچی رہے ان کے ادوار کو اب بھی شہریان کراچی یاد کرتے ہیں۔
آج کراچی جو پچھلی بارشوں میں ڈوب گیا تھا وہ اب ادھڑ کر رہ گیا ہے، آج کراچی سیوریج کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے، شہر کی ہر اہم سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے آبادی کے اندر کی گلیاں اور روڈ اکھڑ کر رہ گئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے پینے کے پانی کے مسائل الگ سے سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔ کے الیکٹرک بھی کراچی کے شہریوں کے جان کا عذاب بنا ہوا ہے۔
کراچی کے ان مسائل کی ذمے دار دو جماعتیں ہیں ایک پی پی پی اور دوسری ایم کیو ایم۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے پچھلے چار پانچ سال سے کراچی کے مسئلے کو پوری شدت سے اٹھایا ہوا ہے، اور خاص طور پر کے الیکٹرک پر ہر موقع پر شدید گرفت کی ہے۔ کراچی کے ان ہی مسائل کو جس سے کراچی کا ہر شہری پریشان ہے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے پورے ملک کے عوام کو 14اکتوبر کو یوم یکجہتی کراچی کے ذریعے آگاہ کرنے کا پروگرام بنایا ہے اس لیے کہ ملک کے ہر جگہ کے لوگوں کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار کراچی میں رہتا ہے اس طرح پورے ملک کے لوگوں کی ایک جذباتی وابستگی تو اس شہر کراچی سے ہے۔ امید ہے پورے ملک میں اس آگاہی پروگرام سے وفاقی حکومت کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہو گی۔