مہنگائی ختم کریں توجہ نہ ہٹائیں

307

ابھی تو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سرکاری کاموں کی ذمے داری ٹائیگر فورس کو دینے کی خبروں پر اعتراضات جاری تھے کہ وزیراعظم ریاستی وسائل استعمال کرتے ہوئے انصاف لائرز فورم کی تقریب میں چلے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وزیراعظم واقعی کچھ نہیں جانتا۔ اسے مہنگائی کا پتا ہی نہیں چلا کہ کس نے بڑھا دی۔ گندم کی درآمد کی اجازت کس نے دی، گوداموں میں موجود گندم کیوں سڑنے لگی۔ چینی کون کھا گیا، گنا ملز کس کی ہیں۔ پولٹری کی صنعت کون چلا رہا ہے۔ مارکیٹوں پر کون براجمان ہے۔ جب کوئی فرد کسی منصب کا اہل نہ ہو اور اسے سلیکٹرز پیراشوٹ کے ذریعے لا کر اس پر بٹھا دیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو لوگ ہوتے ہیں وہ من مانی کرتے ہیں اور جو کچھ بھی کرتے ہیں قومی مفاد میں کرتے ہیں چنانچہ وزیراعظم نے قومی مفاد میں بنائی جانے والی ٹائیگر فورس کی منظوری دے دی۔ انہوں نے قومی مفاد میں انصاف لائرز فورم کے اجلاس میں شرکت کرلی۔ اب جبکہ عدالت عظمیٰ نے نوٹس لے لیا ہے اور وزیراعظم سے استفسار کیا گیا ہے کہ سیاسی تقریب کے لیے سرکاری عمارت کا استعمال کیسے ہوا۔ وزیراعظم پورے ملک کا ہوتا ہے کسی جماعت کے ساتھ خود کو نہیں جوڑ سکتا۔ یہ تقریب سرکاری عمارت کنونشن سینٹر میں ہوئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس گلزار احمد سے استدعا کی ہے کہ چونکہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے اس لیے اس کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا جائے۔ جسٹس فائز عیسیٰ قاضی نے ایک مقدمے میں ایڈووکیٹ جنرل کے عدالت نہ آنے کا بھی نوٹس لیا ہے کہ وہ بھی سیاسی اجتماع میں بیٹھے ہوئے تھے اور بلانے پر بھی نہ آئے۔ عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیا کوئی جج بھی سیاسی تقریب میں شریک ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ لیکن کیا عدالت عظمیٰ کا نوٹس کسی منطقی انجام تک پہنچے گا؟ یہ ایسا سوال ہے جو اب ہر پاکستانی کی زبان پر ہے کیونکہ ازخود نوٹس لینے کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں۔ عدالت میں مقدمات بھی چلتے رہتے ہیں اور ججوں کے ریمارکس بھی سامنے آتے رہتے ہیں لیکن قوم نے کبھی ایسے مقدمات کا فیصلہ ہوتے نہیں دیکھا اور اگر دے بھی دیا گیا تو اس پر عملدرآمد ہوتے نہیں دیکھا۔ عدالت یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ وزیراعظم کی سیاسی تقریب میں شرکت اور سرکاری وسائل کے استعمال سے وزیراعظم کے حلف کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ عدلیہ کے سامنے بھی وہ حلف نامہ ہونا چاہیے اس کے لیے سب کو جمع کر لیا گیا ہے غالباً ایک ہی سماعت کافی ہوگی کہ اس سے معلوم کر لیا جائے کہ حلف میں کیا لکھا ہے اور وزیراعظم نے خلاف ورزی کی ہے یا نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام کئی ہفتے تک یہ سماعتیں کرواتا رہے گا۔ ویسے عوام کی آسانی کے لیے پورا حلف بھی شائع کیا جانا چاہیے۔ اس حلف میں جو چیز قابل گرفت ہو سکتی ہے وہ یہ جملہ ہے۔ ’’میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا‘‘۔ یہاں حلف سے متصادم عمل ہوا ہے۔ انصاف لائرز کے پروگرام میں شرکت ان کا ذاتی مفاد تھا یا سیاسی لیکن کم ازکم سرکاری کام کسی طور نہیں تھا۔ عدالت نے اس بات کا نوٹس لے لیا اچھا کیا لیکن اس بات کا بھی نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ وزیراعظم سرکاری کام میں بار بار فوج کو کیوں گھسیٹ رہے ہیں۔ فوج کے سربراہ نے تو کہہ دیا ہے کہ وہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے حکومت کی مدد کرتے رہیں گے۔ لیکن وزیراعظم کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوج حکومت کی سیاسی حمایت اور مدد بھی کر رہی ہے۔ سب سے زیادہ قابل گرفت بات وزیراعظم نے یہ کی ہے کہ آئی ایس آئی کو سب کی کرپشن کا علم ہے۔ اس کا مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ آئی ایس آئی سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور سیاستدانوں کی کرپشن کا علم ہونے کے باوجود بروقت کوئی کام نہیں کرتی۔ اس الزام کو عدالت عظمیٰ اپنے ازخود نوٹس کا حصہ بنائے اور وزیراعظم سے پوزیشن واضح کرنے کے لیے کہا جائے۔ کیونکہ پورے ملک میں تاثر بھی یہی ہے کہ عسکری ادارے سیاست میں دخل دیتے ہیں بلکہ سیاسی امور اپنی مرضی سے چلوانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کا بیان تو اس تاثر کی تصدیق کر رہا ہے۔ اگر پاک فوج کے کسی اعلیٰ افسر نے وزیراعظم سے ان کی حکومت کی حمایت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے تو وزیراعظم کو بچوں کی طرح بار بار اس کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم کو کس کس بات پر متوجہ کیا جائے اور ان سے کس کس بات کی باز پرس کی جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز اور سوشل اور غیر سوشل میڈیا کو نیا تماشا دینے کے لیے ایسا بیان دلوایا گیا ہے اور ایسے اجتماع میں شرکت کروائی گئی ہے کہ لوگ وزیراعظم کے حلف اور وکلا کنونشن میں شرکت کی بحثوں میں پڑے رہیں اور کسی کی توجہ اس جانب نہ جائے کہ آٹا مہنگا اور مارکیٹ سے غائب، چینی، مہنگی اور نایاب، گوشت سبزی پھل مہنگے، دالیں تک مہنگی۔ ایسے میں لوگوں کو اس مہنگائی کا اصل سبب بتانے کے بجائے میڈیا وزیراعظم کے خلاف ازخود نوٹس پر بحثیں کر رہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو ایک مذاق سوجھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کورونا اور بارشوں کی وجہ سے ہوا۔ تو جن ممالک میں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے وہاں تو فاقے ہو رہے ہوں گے۔ مشیر موصوف نے اپنی اور حکومت کی نااہلی کا سارا وبال کورونا اور بارش پر ڈال دیا۔ شاید وزیراعظم کو اس بیان کا علم بھی کسی ازخود نوٹس سے ہو۔ ورنہ انہیں تو پتا نہیں ان کے وزیر مشیر کیا کر رہے ہیں۔ اب حکومت نے ایران سے پیاز اور ٹماٹر درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے ہی ایک لاکھ 80 ہزار ٹن گندم درآمد کی جا رہی ہے۔ زرعی ملک کا یہ حال کر دیا جائے گا اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ حفیظ شیخ یہ تو بتائیں کہ گندم چینی مافیاز کون لوگ ہیں کیوں ان کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی سیاسی بیان بازی کبھی کوئی اور ڈراما۔ حکومت سارے ڈرامے بند کرکے مہنگائی پر قابو پائے، عوام کو ریلیف دے۔