کثافت کا رستہ، لطافت کی منزل

203

شرَفِ عالم
میں: آج کچھ گہری سوچ میں ہو!
وہ: میں کئی دنوں سے انسان کے وجود پہ غور کر رہا ہوں کہ آخر انسان میں بیک وقت دو انتہائیں کیسے سما سکتی ہیں ایک طرف اس روئے زمین پر انسانوں کے ایسے ایسے رُوپ ہیں کہ جن کے شر سے دنیا پناہ مانگتی ہے تو دوسری طرف سچائی اور عمل کے وہ روشن کردار ہیں جن کی وجہ سے انسانیت خود پر نازاں ہے۔
میں: تو کسی نتیجے پہ پہنچے؟
وہ: ہاں کئی عُقدے کھلے، سوچ کے کئی در وا ہوئے۔
میں: اچھا تو کچھ مجھے بھی بتائو کیوں کہ بقول سقراط ’’میں اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔
وہ: یہ سن کر خوشی ہوئی کہ تمہارے اندر کچھ جاننے کی جستجو ہے کبھی اس پہلو پر غور کیا ہے کہ انسان کا سارا وجود سراپا کثافت ہے دنیا میں آنے کے بعد گزرنے والے ہر لمحے کے ساتھ انسان کثیف سے کثیف تر ہوتا چلا جاتا ہے، تمام عمر اس کثافت کی پرورش کرتا ہے اور اپنے دم آخر پر بھی اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
میں: لیکن میں نے ایسے بھی کچھ وجود دیکھے ہیں جو اپنے وجود کی کثافت کے باوجود بھی اپنی لطافت پر کوئی حرف نہیں آنے دیتے۔
وہ: بات تو تم نے درست کی ہے لیکن کیا کبھی اس پر بھی غور کیا ہے کہ انسان کے لیے لطافت کیا ہے، اور اس کا وجود کسی لطیف احساس کا ادراک کیسے کرتا ہے۔
میں: تم ہی کہو
وہ: دیکھو میرے دوست کثافت کا تعلق مادے سے ہے اور لطافت کا روح سے، یعنی انسان کا جسم کثافت ہے اور روح ایک لطیف احساس، دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ روح اس کائنات کا سب سے لطیف مادہ ہے تو غلط نہ ہوگا
میں: تم یہ بات اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ سائنس اپنی تمام تر تحقیق کے بعد بھی اس بات کو ماننے سے ابھی تک انکاری ہے کہ روح کائنات کاسب سے لطیف مادہ ہے
وہ: ایسا نہیں ہے، جدید طبیعات اپنے تجربات کی روشنی میں آج اس نتیجے پر پہنچنے کے بہت قریب ہے کہ جہاںکسی مادے، روشنی اور ہوا کا شائبہ تک نہ ہو وہاں بھی کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہوتا ہے۔
میں: لیکن تم بات کررہے تھے لطافت اور لطیف احساس کی
وہ: ہاں۔۔۔۔ لطیف احساس کا تعلق روح سے ہے اور جسم کی مادی ضرورتیں، یعنی لباس، بھوک، پیاس وغیرہ ہمیشہ کسی نہ کسی کثافت سے پوری ہوتی ہیں مگر روح کی ضرورتیں قلبی سکون سے، ہمدردی کے احساس سے، انصاف اور مساوات سے پوری ہوتی ہیں۔
میں: لیکن روح امر ربی ہے۔
وہ: بے شک جب ہی وہ تمام صفات جو خالصتاً خدا کی ذات سے منسوب ہیں وہ انسان سرانجام دے تو روح کی تسکین کا سامان بن جاتی ہیں۔ اور روح کی تسکین ہی سے زندگی کی لطافت ہے۔
میں: مجھے تو انسان کی زندگی کثافت اور لطافت کے مابین ایک نا ختم ہونے والا تصادم لگتی ہے۔
وہ: تم نے بہت خوب صورت بات کہی ہماری آج کی گفتگو کو ایک جملے میں سمو دیا حقیقت یہی ہے کہ لطافت کی منزل کا سفر کثافت کے رستے پر چل کر ہی طے ہوتا ہے اور نہ جانے کتنے مسافر اپنے وجود کی بہتیری کثافتوں کا بوجھ اٹھا نہیں پاتے، منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی رخت سفر کھول دیتے ہیں۔
میں: تم کس منزل کی بات کررہے ہو۔
وہ: میں نے کہا نا، لطافت کی منزل اور وہ ہے ابدی قیام کی جنت جہاں انسان ہر اس کثافت سے آزاد ہوگا جس کا بوجھ اٹھانا اس دنیا میں اس کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی لیکن اگر وہ اپنی طبعی کثافتوں کے ساتھ گناہوں کی کثافتوں سے بھی آلودہ ہوکر گرتا پڑتا اپنی منزل پر پہنچا تو پھر واپسی کا سفر ناممکن ہوگا۔
بقول شاعر
عجیب حبس شرف یوم آخرت کو ملا
میں لوٹ جاتا مگر راہِ واپسی نہ رہی
میں: کیا خوب کہا ہے لیکن میں نے اپنے بچپن میں ایک ایک کہاوت پڑھی تھی، کہو تو سنائوں؟
وہ: کیوں نہیں
میں: ایک شخص جہنم کے دروازے پر کھڑا اندر کا احوال جاننے کی کوشش میں تھا، جھانک کر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ یہ کیسی جہنم ہے جہاں کوئی آگ ہے نہ الائو، ساتھ کھڑے شخص سے پوچھا تو اس نے جواب دیا جہنم میں آگ کہاں یہاں تو ہر شخص اپنی آگ ساتھ لیکر آتا ہے۔ جو اس کے گناہوں کی کثافت سے دہکتی ہے۔