چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد نے تبصرہ کیا ہے کہ کھوج لگائی جائے تو کے الیکٹرک کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے۔ کراچی لوڈشیڈنگ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ نجی کمپنیاں حکومتی غلطیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ کراچی میں بجلی کا مسئلہ کتنا حل ہوا۔ قیمت بڑھا دی گئی۔ عدالت کے ریمارکس سنیں تو لوگون کو بڑا اطمینان ہوتا ہے کہ کوئی ادارہ تو ہے جو کے الیکٹرک کی حقیقت بیان کر رہا ہے لیکن عدالت عظمیٰ، ایف آئی اے، نیب وغیرہ کو کس طاقت نے روک رکھا ہے کہ کے الیکٹرک کے خلاف کھوج نہ لگائیں، ضرور کھوج لگائیں اور اس ادارے کے تانے بانے سب کے سامنے لائے جائیں۔ عدالت نے یہ ریمارکس بھی دیے ہیں کہ حکومت میں صلاحیت ہی نہیں ہے سارا ملک پریشان ہے کسی پاکستانی کو رتی بھر فائدہ نہیں ہو رہا۔ حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے اٹارنی جنرل کو بہت کچھ سننی پڑیں۔ عدالت نے استفسار کیا ہے کہ سنا ہے کہ کے الیکٹرک کے پیچھے شرما نام کا بندہ ہے! سامنے کوئی ہے پیچھے کوئی ہے فائدہ کون لے رہا ہے۔ کے الیکٹرک ڈیفالٹر ہے اس کے حکام کو جیل بھیجنے کی بات بھی کی گئی ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام کا کمال ہے کہ جس لوڈ شیڈنگ کے کیس کی سماعت ہو رہی ہے اب اس لوڈشیڈنگ میں وہ شدت نہیں ہے۔ اب لوگ کے الیکٹرک کے ریٹس اور بلوں سے پریشان ہیں۔ اس کے ماضی کے واجبات ان کے سر پر دے مارے گئے ہیں۔ آج عام آدمی کا مسئلہ لوڈشیڈنگ سے زیادہ بجلی کے نرخ اور بل ہیں۔ مہنگائی ہے اور بیروزگاری ہے ایک اور بات یہ ہوئی کہ کراچی لوڈشیڈنگ کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ اب ایک ماہ بعد پورے ملک میں کون گرمی کا مارا رات بھر جاگ رہا ہوگا نومبر کا نصف مہینہ گزر چکا ہوگا۔ سردیوں میں لوگوں کو بجلی سے زیادہ گیس کی فراہمی کا مسئلہ ہوگا اور جب تک فیصلہ آئے گا اس وقت تک کے الیکٹرک کی موجودہ انتظامیہ عوام سے اربوں روپے بٹور چکی ہوگی اور پرانی ریت کے مطابق ممکن ہے کہ انتظامیہ ہی بدل چکی ہو۔ عدالت کو اگر شبہ ہے کہ شرما نامی کوئی بندا پیچھے ہے تو فوری طور پر تمام ادروں کو متحرک کرے اور کھوج لگانے کا حکم دے۔ مزید یہ کہ جس طرح نیب، ایف آئی اے اور دیگر ادارے کسی کے خلاف شبہات پر اسے گرفتار کر لیتے ہیں اس کا سارا کاروبار ٹھپ کر دیتے ہیں، اسی طرح کے الیکٹرک کے ساتھ کیوں نہیں کر رہے۔ اس پر تو چیف جسٹس نے شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ویسے بھی یہ بات تو معروف ہے کہ کے الیکٹرک کے سابق مالک مستند جرائم پیشہ نکلے ہیں۔ کے ای ایس سی جب کے الیکٹرک بنی اور جس گروپ نے اس ادارے کو خریدا تو اس وقت بھی یہی باتیں کہی جا رہی تھیں کہ سامنے کوئی اور پیچھے کوئی ہے اب تو یہ بات مستند ہے کہ سامنے کوئی اور پیچھے کوئی اور لیکن عدالت تو وزیراعظم عمران خان نیازی سے یہ بھی نہیں پوچھ رہی کہ اس لٹیرے ادارے کے سابق سربراہ کو اپنا معاون خصوصی کیوں بنا لیا۔ یہ جو تبصرہ چیف جسٹس نے کیا ہے کہ سب ملے ہوئے ہیں تو تابش گوہر کا تقرر اس کی تصدیق کر رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس وفاقی حکومت کی نااہلی اور ناکامی کی باقاعدہ رپورٹ ہیں۔ اس رپورٹ کی روشنی میں موجودہ حکمرانوں کو گھر بھیج دیا جانا چاہیے۔ وزیراعظم خود کئی معاملات میں ملوث ہیں، کئی غلطیاں کر چکے ہیں لیکن ان سارے معاملات پر سماعتیں ہی ہو رہی ہیں۔ ان سماعتوں اور پیشیوں کی خبریں پڑھ پڑھ کر اور سن سن کر عوام کی بصارت اور سماعت جواب دے رہی ہے۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جب عوام کو بجلی کی ضرورت تھی تو مقدمہ ہی نہیں چلا اب مقدمہ چل رہا ہے تو بجلی کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ موسم بدل رہا ہے لیکن عوام اب بجلی سے زیادہ دوسرے مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔ انہیں اشیائے خورونوش مل ہی نہیں رہی ہیں۔ مل بھی جائیں تو کسی چیز کی قیمت قابو میں نہیں ہے۔ حکومت ایران سے پیاز، ٹماٹر منگوا رہی ہے۔ ان لوگوں کے پاس کوئی اور حل نہیں ہے۔ پہلے مافیاز کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں بحران پیدا کریں اور پھر زرعی ملک کا خزانہ عوام کی فلاح پر خرچ کرنے کے بجائے مافیا کی مدد کے لیے خرچ کرتے ہوئے اشیا درآمد کرنے کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔ یہ درآمدات اس قدر تیزی سے ہوتی ہیں جیسے دوسری طرف سب کچھ تیار تھا۔ جہاز لدے ہوئے تھے بس یہاں سے آرڈر جاری ہونے کا انتظار تھا۔ چیف جسٹس اس کی بھی کھوج لگائیں تو ایسا ہی نکلے گا۔ یہ کھیل بہت کھیلا جا چکا ہے کہ پہلے بحران پیدا کیا جاتا ہے پھر درآمدات کی جاتی ہیں اور بعد میں یہی اجناس اضافی قرار دے کر دوبارہ برآمد کر دی جاتی ہیں۔ کبھی کبھار ان میں سے کوئی کام عملاً نہیں ہوتا بس کاغذ پر درآمد کاغذ پر برآمد اور حکومت میں بیٹھے چینی اور گندم مافیا والوں کو فائدہ ہو جاتا ہے۔