ایف بی آر کے چیئرمین نے دعویٰ کیا ہے کہ عدالتوں نے ملک بھر میں 1856 ارب روپے کے ٹیکسوں کی وصولی روک رکھی ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا کہ ایف بی آر کو ریفنڈ کی مد میں 345 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔ چیئرمین کی جانب سے یہ وضاحت کافی سمجھ کر کمیٹی نے معصوم ایف بی آر کی مدد کا وعدہ کر لیا ہے اور ٹیکس وصولی کے عمل میں ایف بی آر کو آسانی دلوانے کے لیے حکم امتناع رکوانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی بھی یقین دہانی کرا دی ہے۔ لیکن یہ معاملہ یکطرفہ ہے اصل بات معلوم ہونی چاہیے۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے ایف بی آر کے چیئرمین نے اپنے ادارے کا کیس خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ لیکن ایف بی آر کے معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ بسا اوقات ایف بی آر محض ٹیکس ہدف سے قریب ہونے کی رپورٹ کی خاطر ٹیکس گزاروں کے خلاف غیر حقیقی چالان بنا دیتا ہے۔ یہ کام بالکل آخری دنوں میں ہوتا ہے جب تاریخ ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے جب تک ٹیکس گزار اپیل میں جاتا ہے اور اپیل کی سماعت ہوتی ہے اس وقت تک ایف بی آر کی وصولیابی کی رپورٹ آگے جا چکی ہوتی ہے اس رپورٹ کی بنیاد پر یہی قومی اسمبلی بہت سے منصوبوں کی منظوری دے دیتی ہے کہ اگر فلاں مہینے تک وصولی قابل اطمینان ہو چکی ہے تو آنے والے مہینوں میں ہدف سے قریب تر ہوں گے لیکن جب اپیلوں پر فیصلے ہوتے ہیں تو ٹیکس گزاروں کو رقم واپس کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح ٹیکس وصولی کا ہدف پورا ہونے کی خبر بھی بن جاتی ہے اور ٹیکس گزاروں کو ریلیف بھی مل جاتا ہے۔ اسی طرح جب حکومت نے سپر ٹیکس عاید کیا تو اس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا سندھ ہائیکورٹ نے اس کو درست قرار دیا لیکن اب معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے۔ جو کمپنیاں سالانہ 50 کروڑ یا اس سے زیادہ کماتی ہیں ان کو سپر ٹیکس دینا ہوگا اور یہ منافع بینکوں، مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ہوتا ہے۔ اس میں ان کو نقصان تھا لہٰذا ابھی یہ معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ہمارے ادارے میں خراب لوگ ہیں۔ بات صرف خراب یا برے لوگوں کی نہیں ہے۔ باقاعدہ کرپشن کے ملزمان اور سزا یافتگان بھی اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ ایسے افسران سے ایمانداری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی ایف بی آر کے بارے میں ٹیکس گزاروں کی گزارشات بھی سنے تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔غیر حقیقی اعداد و شمار کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔ حکومت اعلان کر دیتی ہے اور رقم موجود نہیں ہوتی جو ملک میں بحران کا سبب بنتا ہے۔