وفاقی دارالحکومت میں اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام جید علما اور دانشوروں کی پیغام پاکستان کے بیس نکاتی اعلامیہ میں ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے راہنما اصولوں کا تعین کیا گیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تمام شہری ریاست کے ساتھ وفاداری کو نبھائیں۔ آزادی ٔ اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے۔ فرقہ وارانہ نفرت اور اسلام کے منافی کوئی پروگرام نشر نہیں کیا جائے گا۔ کوئی شخص مسجد امام بارگاہ منبر اور مجلس میں نفرت انگیز تقریر نہیں کرے گا۔ اسلام کے نام پر جبر اور مسلح کارروائی بغاوت تصور ہوگی۔ اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنا خلاف شریعت ہے۔ ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی علاقائی اور فرقہ وارانہ تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ کسی فرد کو حق نہیں کہ وہ ریاستی اداروں اور مسلح افواج کو کافر قرار دے۔ ہر فرد غیرت کے نام پر قتل وٹا سٹا، قرآن سے شادی، ونی کاروکاری سے باز رہے۔ موجودہ حالات میں اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام پیغام پاکستان کانفرنس کا یہ اعلامیہ معاشرے اور ریاست دونوں کے لیے ایک راہنما اصول بن سکتا ہے۔ ملک ومعاشرے کو جس قدر ہم آہنگی اور یگانت کی ضرورت آج ہے شاید ہی اس سے پہلے رہی ہو۔
دنیا کی جدید تقسیم اور تشکیل کا عمل سرعت سے جاری ہے اور دنیا ایک سرد جنگ کے زیر اثر ہے۔ پرانے بلاک شکست ریخت کا شکار ہیں اور نئے بلاکس کے خدوخال اُبھر رہے ہیں۔ اس وقت بھی اصول، حق اور سچ کے سوتے نظریات سے پھوٹ کر وہیں ختم ہوتے اور اب بھی یہ اصطلاحات تجارتی ضرورت سے شروع ہو کر وہیں گم ہوجاتی ہیں۔ ماضی کی سرد جنگ سے موجودہ دور میں شروع ہونے والی کھینچا تانی تک وقت نے ایک جست لی ہے۔ وقت کا پہیہ آگے کی طرف چل نکلا ہے مگر ذہن وہیں منجمد ہیں جہاں یہ اس وقت ہیں۔ یوں دنیا عملی طور پر آگے نکل گئی ہے مگر ذہن اور سوچ ماضی میں ہی اٹک کر رہ گئی ہے۔ اپنی پسند کے ظالم اپنی سہولت کے مظلوم، من پسند دہشت گرد اور حریت پسند کی صورت میں دنیا ایک مضحکہ خیز تضاد پر کھڑی ہے۔ سرد جنگ کے اس نئے انداز نے خطرات اور چیلنجز کو بڑھا دیا ہے۔ براہ راست حملوں کا رجحان اور شوق اب پس پردہ جنگوں میں بدلتا جا رہا ہے۔ اس طرز جنگ میں مدمقابل کے لیے گولی کے بجائے بولی کا استعمال اہم ہو کر رہ گیا ہے۔ گولی مہنگی ہوتی اور اسے چلانے کے لیے اپنے فوجیوں کو آگ میں جھونکنا پڑتا ہے۔ یہ کام افغانستان میں سراسر خسارے کا سودا ثابت ہو چکا ہے۔ اس لیے معاشروں کو اندر سے بے چینی اور اضطراب کا شکار کرنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا اس طرز جنگ کا ہتھیار ہے۔ اس ہتھیار کے استعمال سے کسی بھی سوسائٹی کا اپنی ریاست اور حکومت پر اعتماد متزلزل کیا جا سکتا ہے۔ انسانوں میں غصہ بھرا جا سکتا ہے اور انہیں ریاست سے لڑنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے انہیں مایوسی کی دلدل میں دھکیلا جا سکتا ہے۔
عرب بہار میں ہاتھ کی صفائی دکھائی جا چکی ہے۔ عرب بہار میں مصر کے عوام نے جو فیصلہ کیا اس کو سال بھر میں غیر منطقی انجام سے دوچار کیا گیا کیونکہ عرب بہار سے اس قسم کی تبدیلی برآمد کرنا مطلوب ہی نہیں تھا۔ یہ عالمی
اور علاقائی ٹھیکیداروں کی مرضی کے خلاف برآمد ہونے والا فیصلہ تھا جسے سال بھر بمشکل ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا اور پھر مصری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور وہاں پھانسیوں کا بازار سجا ہوا ہے۔ باقی لیبیا، تیونس، مراکش سمیت سب تبدیلیاں انہیں راس آئیں تو وہاں ملکوں کا حلیہ ہی بگڑ گیا ہے۔ اس بدلتی ہوئی دنیا کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ یہاں بھی ریاست کو چار ممالک کی تھانیداری میں قائم ہونے والے عالمی بلاک سے الگ ہو کر چین اور روس کی سمت کھڑا ہونے کی سزا دینے کا عمل زوروں پر ہے۔ پاکستانی معاشرے کو اندر سے توڑ پھوڑ کا شکار کرنے کے لیے فرقہ وارایت سمیت ہر قسم کے تعصبات کو اسلام، قومیت، لسانیت کے نام پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ ریاست متعصبانہ جذبات کے اس سیلاب کے آگے بے بس اور مجبور ہو کر بیٹھی ہے کیونکہ اس سیلاب میں لوگوں کے تعصبات اور جذبات شامل ہیں۔ اب اسلامی نظریاتی کونسل نے ایسے عناصر کے پیروں تلے سے زمین ہی کھینچ لی ہے جو اسلام اور دیگر ناموں پر سوسائٹی کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
گزشتہ دنوں اچانک پاکستان میں شیعہ سنی کا متروک کارڈ دوبارہ کھیلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کارڈ حقوق اور قومیتوں کے نام پر بھی کھیلنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ ریاست کو اس اعلامیہ کی بنیاد پر ایک جامع پالیسی تیار کرنی چاہیے۔ یہ اعلامیہ جہاں ہم آہنگی کے فروغ کی پائیدار بنیاد بن سکتا ہے وہیں یہ ریاست کی پیش بندی ہو سکتا ہے کیونکہ اگر یہ اعلامیہ ریاست کی پالیسی بنتا ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت اسے عوامی سوچ کو دبانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کر سکتی ہے۔ کیونکہ اس کے کچھ نکات کا دہرا استعمال ممکن ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ حکومت اس اعلامیہ کا ناجائز استعمال نہ کرے اور اسے مملکت اور ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں تک محدود رکھے۔ حکومتوں کے خلاف احتجاج عوام کا جمہوری حق ہے اور اس حق کو اس وقت تک برداشت کیا جانا چاہیے جب تک کہ امن کی حد کے اندر ہو۔ جب کوئی احتجاج تشدد کی راہوں پر چل پڑے تو پھر اجتماعی بھلائی کے تحت اسے پابندیوں کا شکار کرنا حکومت کی ذمے داری بنتی ہے۔ پاکستان کو کاغذ کی کشتی بنائے رکھنے والی ڈھلمل پالیسی کو سختی سے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آزادی اظہار کی جو نادرونایاب قسم پاکستان میں پائی جاتی ہے دنیا میں کہیں اور اس کا وجود دکھائی نہیں دیتا۔