پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ 11مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ اس میں ہر سیاسی جماعت کی موجودہ حکومت سے شکایات کی نوعیت بھی مختلف ہیں، کچھ سیاسی جماعتیں جو پہلے حکومت کے ساتھ تھیں لیکن جن نکات پر اتحاد ہوا تھا وہ پورے نہیں ہو سکے اس لیے وہ پی ڈی ایم میں چلے گئے، پی پی پی کا مسئلہ اٹھارویں ترمیم کا تحفظ ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے انہیں صوبے میں بے پناہ مالی اختیارات حاصل ہوئے ہیں اس لیے وہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک ایسا پریشر بلڈ اپ کرنا چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم کے حوالے کوئی قدم نہ اٹھا سکے۔ ن لیگ اور جے یو آئی ایف کا موجودہ حکومت سے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں ان کی جیت کو کچھ نادیدہ قوتوں نے شکست میں بدل دیا اسی لیے نواز شریف نے اپنی تقریر میں یہ کہا تھا کہ ہمیں عمران خان سے کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ ان کو ہمارے اوپر مسلط کرنے والوں سے شکایت ہے۔
پی ڈی ایم کا مخمصہ دراصل اسمبلیوں سے مستعفی ہونا ہے، پی پی پی کو موجودہ حکومت سے وہ شکایت نہیں ہے جو ن لیگ اور جے یو آئی کو ہے۔ پی پی پی کو پچھلے الیکشن میں سندھ میں کامیابی حاصل ہوئی اور اس کے نتیجے میں اسے سندھ کی حکومت بنانے کا موقع مل گیا اسے الیکشن کمیشن سے یہ شکایت کم ہے کہ اس کی جیتی ہوئی نشستوں کو شکست میں تبدیل کرکے وہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار کو کامیاب کرایا گیا۔ اس لیے پی ڈی ایم میں پی پی پی کی شمولیت اپنی کرپشن کی کمائی کو بچانا، نیب کے اختیارات کو محدود کرانا اور اٹھارویں ترمیم کا تحفظ ہے۔ پی پی پی کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی کوئی بات کم ہی کی جاتی ہے، اور کبھی کچھ کہا بھی تو اس کی ٹون ن لیگ کے مقابلے میں ہلکی ہی رہی۔ اس کی ایک تاریخی وجہ بھی ہے پانچ چھ سال قبل جب آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیان دیا تھا اس وقت نواز شریف صاحب وزیر اعظم تھے۔ کراچی سے بیان دینے کے بعد جب آصف زرداری اسلام آباد گئے اور وزیر اعظم سے ملاقات کرنا چاہا تو وزیر اعظم نواز شریف نے ملنے سے انکار کردیا، ظاہر ہے اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ آصف زرداری کے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بیانیے سے وہ متفق نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے ملاقات کے لیے وقت نہ دینے کی وجہ سے زرداری صاحب کو مایوسی ہوئی اور چند دنوں بعد وہ امریکا چلے گئے۔
ن لیگ کی قیادت کہتی ہے ہمارے سارے لوگ استعفا دینے کے لیے تیار ہیں جب وقت آئے گا تو خود ہی پتا چل جائے گا، بلکہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی ارکان ان کے رابطے میں ہیں اور وہ بھی مستعفی ہونے کے لیے تیار ہیں۔ جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن پہلے ہی سے چاروں ہاتھ پیروں سے تیار بیٹھے ہیں۔ اصل مسئلہ پی پی پی کا ہے کہ مڈ ٹرم انتخابات کے انعقاد کی خاطر انہوں نے اسمبلیوں سے استعفا دے دیا اور صوبہ سندھ کی حکومت ان کے ہاتھ سے چلی گئی تو کیا ضروری ہے کہ درمیانی مدت کے انتخاب ہو ہی جائیں اور اگر ہو بھی گئے تو کیا دوبارہ انہیں صوبہ سندھ کی حکومت مل بھی سکتی ہے یا نہیں۔ یہی وہ اندیشہ ہائے دور دراز ہے جس کی وجہ سے پی پی پی استعفوں کے موضوع پر کوئی بات نہیں کرتی دیگر پارٹیاں کہتی ہیں استعفے ہمارا آخری آپشن ہے اس سے پہلے ہی یہ حکومت چلی جائے گی۔ پی ڈی ایم کے پاس پتا نہیں وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے وہ موجودہ حکومت سے نجات پالیں گی۔ ابھی تو جلسوں کا آغاز بھی نہیں ہوا 16اکتوبر کو گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ ہے۔ یہ جلسہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ اپنی حاضری، جوش و خروش اور قائدین کی تقاریر کی بنیاد پر آئندہ کے جلسوں کا رخ متعین کرے گا اس کے دو دن بعد 18اکتوبر کو کراچی میں جلسہ ہے گوجرانوالہ کے جلسے کا انتظام ن لیگ کے ہاتھ میں ہوگا جبکہ کراچی کے جلسے کا انتظام پی پی پی کے ہاتھ میں ہوگا۔ گوجرانوالہ کے جلسے میں حاضری کی بنیادی ذمے داری تو ن لیگ کی ہے لیکن حاضری بڑھانے کی ذمے داری پی پی پی اور مولانا فضل الرحمن کو دی گئی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی تحریک کامیاب ہو جائے گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی مخالفت میں اضافہ تو ہوا ہے کہ یہ مہنگائی کو کنٹرول نہیں کرپا رہے ہیں دوائوں کی قیمتوں میں چار سو فی صد تک اضافے نے غریبوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے آٹے دال چینی گھی تیل اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں روزآنہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس سارے معاملے میں تشویش کی بات یہ ہے کہ عوام تک یہ بات منتقل ہو رہی ہے یا کرائی جارہی ہے کہ یہ مصنوعی مہنگائی ہے جس میں ان لوگوں کا ہاتھ ہے جو خود عمران خان کے دائیں بائیں ہوتے ہیں، دوائوں کے معاملے میں تو ایک صاحب کے بارے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ راتوں رات ارب پتی بن گئے واللہ اعلم۔
ان سب چیزوں کے باوجود عمران خان کے خلاف مخالفت ابھی نفرت میں تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ تحریکوں کی کامیابی میں اور دوسری وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ حکمرانوں سے عوام کی نفرت بھی ہوتی ہے پاکستان کی عظیم اکثریت اور بالخصوص مشرقی پاکستان کے لوگ فاطمہ جناح کو دل و جان سے چاہتے تھے لیکن ایوب خان نے دھاندلی کے ذریعے ان کو ہروا دیا جس سے عوام میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اسی طرح میدان میں جیتی ہوئی جنگ کو تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہار گئے ان دو وجوہات کی بنیاد پر ایوب خان کے خلاف عوام کے اندر نفرت میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں اس دور میں ہونے والے ترقیاتی کام کے اثرات بھی معدوم ہو گئے اور ایوب خان کے خلاف تحریک کامیاب ہوئی اور انہیں استعفا دینا پڑا۔
وزیر اعظم بھٹو نے اپنے دور میں اچھے کام بھی کیے، لیکن عوام کے دلوں میں ان کے خلاف سقوط مشرقی پاکستان کی وجہ سے نفرت پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان کے عوام یہ سمجھتے تھے کہ اگر بھٹو صاحب الیکشن کے نتائج کو قبول کرکے خود اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو شاید یہ ملک بچ جاتا لیکن ان کی ہوس اقتدار کی وجہ سے الیکشن کے نتائج پر عملدرآمد نہ ہو سکا پھر یہ کہنا کہ جو ڈھاکا میں اجلاس میں شریک ہوگا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور ادھر تم ادھر ہم کے بیان نے ملک کو متحد نہ رہنے دیا ویسے تو 1977کے عام انتخابات میں ریکارڈ دھاندلی کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا لیکن دوران حکومت بھٹو صاحب کے کچھ ظالمانہ اقدامات اور سقوط ڈھاکا نے ان کے خلاف عوام میں شدید نفرت پیدا کی جس کی وجہ سے ان کے خلاف تحریک چلی جو مارشل لا پر جاکر ختم ہوئی۔