امن وامان کے قیام دشمن پر گہری نظریں رکھنے کے دعوئوں کے باوجود دہشت گردی کے دو واقعات میں پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کے 21 جوان شہید ہو گئے۔ پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہونے اور دشمن کی آنکھیں پھوڑ دینے کی بات بالکل درست ہے لیکن پاکستانی جوان اور کیپٹن دہشت گردوں کا نشانہ بن جائیں اور قوم ان دیکھے دشمن سے جنگ لڑتی رہے یا دشمن کے بچوں کو پڑھاتی رہے۔ وزیرستان اور گوادر میں پاکستان کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ انسانی جان اور خصوصاً فوجی جوان پر قوم کا بڑا سرمایہ اور اس کی تربیت کے لیے فوج کی صلاحیتیں لگتی ہیں۔ روایتی طور پر تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے اور روایتی طور پر ہی بی بی سی نے تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس جدید دور میں بھی بی بی سی پاکستان کے حساس واقعات کو رپورٹ کر رہا ہے کیا پاکستانی صحافتی ادارے بڑے بڑے وسائل رکھنے والے ٹی وی چینلز اتنی صلاحیت نہیں رکھتے کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ہونے والے کسی بھی واقعے کی بروقت رپورٹنگ کر سکیں۔ بی بی سی مقامی لوگوں سے انٹرویو کرکے خبرمیں شامل کر رہا ہے۔ یقیناً بی بی سی کا نمائندہ مقامی ہی ہوگا ایسے مقامات پر ان کے نمائندے بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان جس قسم کی جنگ لڑ رہا ہے اس میں محض سامنے کھڑا ہوا دشمن ہی نشانہ نہیں ہوتا بلکہ بیک وقت کئی محاذوں سے حملے ہو رہے ہوتے ہیں۔ ریموٹ کنٹرول حملوں کے خلاف پیش بندی ممکن نہیں ہوتی۔ چھپ کر وار کرنے والوں کو بھی روکا نہیں جا سکتا لیکن ایسے لوگوں کی ملک میں موجودگی ان کے نیٹ ورک کا سرگرم رہنا اور موقع دیکھ کر ایسا حملہ کر دینا افسوس ناک عمل ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستانی فوج دنیا بھر کی افواج میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے اور سخت ترین حالات میں بڑی سے بڑی مہم سر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن اگر انہیں سیاست میں گھسیٹا جائے یا یہ خود سیاسی امور میں الجھ جائیں تو وہ اپنا کام نہیں کر سکتی۔ آج کل پاکستان کی صورتحال نہایت کشیدہ بتائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاز آرائی جاری ہے حکومت کی جانب سے بار بار، فوج ساتھ ہے، پیچھے ہے اور ایک پیج پر ہے، جیسے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپوزیشن کی اے پی سی میں تقریر کرتے ہوئے فوج پر تنقید کر دی اس طرح یہ بحث شروع ہو گئی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بھارتی بیانیہ ہے اور نواز شریف بھارت کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکومت کے الزام میں وزن ہو یا نہیں لیکن اس بات کا امکان ضرور ہے کہ نواز شریف نے ایسے ہی کیا ہو گا۔ ایک جانب بھارتی فوج روزانہ پاکستانی سرحدی علاقوں میں خلاف ورزی کرتی ہے۔ پاکستانیوں کو ہلاک و زخمی کرتی ہے اس کا جاسوس اور دہشت گرد نیٹ ورک بلوچستان، ایران اور افغانستان میں بھی کام کر رہا ہے۔جہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ان حالات میں پاک فوج کو اصل دشمن کے خلاف کارروائی کے لیے مکمل یکسوئی اور توجہ درکار ہے لہٰذا اپوزیشن اور حکومت سے دست بستہ عرض کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فوج کا نام استعمال نہ کریں۔ اس سے ایک تو یہ فائدہ ہوگا کہ پھر جو کچھ کیا جائے گا وہ خالص فوجی کارروائی کہلائے گا۔ فوج کو تو یہ مشورہ چیف جسٹس آف پاکستان دے چکے ہیں کہ وہ بھی اپنے دائرے میں رہے بلکہ وہ سب اداروں کے اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے کی بات کر چکے ہیں مگر یہ سنہری دور پاکستان کے نصیب میں کیا آئے گا کہ ہر ادارہ اپنے کام میں مصروف ہو جائے۔ فی الحال تو اپوزیشن کی سیاسی تحریک سے بھی پاک فوج کو وہی خطرہ ہے جو بیرونی دشمن سے ہوتا ہے۔ بیرونی دشمن دشمن کے طور پر پہچانا جاتا ہے لیکن اس وقت پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے سامنے ملکی مفاد کے سوا ہر چیز ہے دونوں ایک دوسرے پر ایسے جگت لگا رہے ہیں جیسے ان کا یہی کام ہو اور ہے بھی یہی۔ ایک طرف پاکستان کے خلاف بھارتی حملے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے بیانات سامنے آرہے ہیں۔ اسٹیڈیم بھر کر دکھائو۔ چیلنج قبول ہے۔ وغیرہ۔ یہ سب غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے۔ اپوزیشن سیاست بھی کرے اس حکومت کو گرانے کی جتنی کوشش کی جاسکتی ہے وہ بھی کرے اسے گر جانا چاہیے۔ لیکن پاکستان میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حکومت گرا دی جاتی ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت گرانے کے بعد جو حکومت بنائی جاتی ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ خراب نکلتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عزم کرنا چاہیے کہ فوج کو کسی سیاسی معاملے میں نہ گھسیٹیں اسے ابھی مودی سرکار کا دماغ درست کرنا ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کو رکوانا اور کشمیر آزاد کراناہے۔ پاکستان میں جہاں جہاں بھارتی ایجنٹس کام کر رہے ہیں ان کے خلاف کریک ڈائون کرنا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کی وجہ سے بیک وقت کئی ممالک کے مفادات پیدا ہو گئے ہیں۔ امریکا، بھارت، چین، ایران، ترکی، افغانستان اور عرب دنیا سب شامل ہیں۔ فوج کو ان چیلنجز سے بھی نمٹنا ہے لہیزا اسے سیاست کے خارزار میں نہ گھسیٹا جائے لیکن مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی میں یہ صلاحیت نہیں کہ فوج کو اس میدان سے دور رکھیں یہ تو خود فوج کی مدد سے اقتدار میں آنے کے لیے کوشاںجماعتیں ہیں تو پھر کیا پی ٹی آئی سے یہ توقع باندھی جائے۔ ایسا بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ 2018ء کے انتخابات تک تو ایسا سوچا جا سکتا تھا لیکن انتخابی نتائج اور دیگر کمالات کے بعد تو یہ پارٹی ان دونوں پارٹیوں سے بھی زیادہ بودی ثابت ہوئی۔ ان تینوں پارٹیوں میں کسی قسم کے بڑے چیلنج کا سامنا کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پاک فوج ہی سے جس میں قوت فیصلہ بھی ہے اور صلاحیت بھی اس لیے سیاست سے دوری کا فیصلہ تو اسے ہی کرنا ہوگا تاکہ اپنی ساری قوت توانائی توجہ اور صلاحیتیں پاکستان کے دشمنوں سے نمٹنے پر صرف کر سکے۔