پاکستان میں مہنگائی کی شرح انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ غذائی اجناس کی صورت حال یہ ہے کہ مقامی طور پر پیدا ہونے والی اشیا ہوں یا باہر سے درآمد ہونے والی سب ہی کی قیمتوں میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اجناس کی دوگنے سے زیادہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور وہ ایسی ہیں عموماً جن کو ملک کے اندر ہی سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ یعنی سبزیاں آلو، پیاز، ٹماٹر پھر انڈے مرغی وغیرہ۔
ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سپلائی چین میں تعطل، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ اور حکومت کی بدانتظامی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ سب سے بڑی وجہ حکومت کی بدانتظامی یہی ہے۔ اسی کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ اور سپلائی چین میں تعطل پیدا ہوتا ہے۔ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کسی قسم کے اقدامات کرنے سے ہی معذور لگتی ہے، زیادہ ہوا تو وزیراعظم صاحب اپنی ٹائیگر فورس کو آواز دیتے ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کا یہ قدم انتہائی نامناسب ہے۔ مہنگائی کی ایک وجہ کاروباری طور پر قیمتوں کو بڑھانے کے لیے گٹھ جوڑ بھی ہے۔ اس کو کارٹل یا مافیا بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس رجحان کے خلاف مختلف قواعد اور قوانین بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کے لیے ایک مسابقتی کمیشن موجود ہے۔ جس کا کام اشتہارات اور کمپنیوں کے گٹھ جوڑ سے اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ لیکن اس مسابقتی کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ کارٹل اور مافیا بہت طاقت ور ہیں اور بجائے اس کے کہ کمیشن ان کو کنٹرول کرے وہ کمیشن کو کنٹرول کرتے ہیں کہ انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں کی عدالتوں میں کمیشن کے فیصلوں کو چیلنج کر رکھا ہے۔ پچھلے سال اسی کمیشن نے آٹے کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے فلور ملز ایسوسی ایشن کے خلاف کارروائی کی تھی۔ فلور ملز بااثر افراد کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا اوّل تو عائد کیا گیا جرمانہ ادا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے خلاف عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا یعنی مقدمے کردیے گئے۔ ہمارے ہاں نظام عدالت کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اور اس کا فائدہ سب سے زیادہ بااثر مجرم کارٹل اور مافیا ہی اُٹھاتے ہیں۔
ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ مہنگائی کی بڑی وجوہات اقتصادی گٹھ جوڑ یا مسابقتی کمیشن کی بری کارکردگی نہیں بلکہ سود کی بلند شرح روپے کی قدر میں کمی اور سب سے اہم اور بڑی وجہ حکومت کی بدانتظامی ہے۔ پچھلے جنوری میں آٹے کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا لیکن یہ رکا نہیں بلکہ اب تک ہفتوں کے حساب سے مسلسل اس کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ عوام کے لیے روٹی کھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ابھی اکتوبر کا مہینہ آدھا ہی ہوا ہے اور گندم کی قیمت میں دو دفعہ اضافہ ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کے مہنگائی پر ہر نوٹس کے بعد بجلی سے لے کر ہر اشیائِ ضرورت کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ مہنگائی میں اضافے کی وجہ کورونا اور بارشوں کو قرار دے کر فارغ ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ یعنی اکتوبر میں آٹا، دال، گھی، چینی، پھل اور سبزیاں سب کی قیمتوں میں گویا پھر پَر لگ گئے۔ ہر دکان اور ریڑھی بان کی اپنی الگ قیمت ہے، ہر ایک دس بیس بڑھا کر فروخت کررہا ہے، پرائس کنٹرول کمیٹی بھنگ پی کر سو رہی ہے۔ شیخ رشید ایسے میں اگر کہتے ہیں کہ مہنگائی حکومت کی سب سے بڑی دشمن ہے تو ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ یہ مہنگائی حکومت ہی کے وزرا، مشیروں اور دیگر انتظامی امور کو طے کرنے والے لوگوں کی نااہلی کے باعث ہے۔ ذرا سوچیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ایسا ملک جو جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا زرعی ملک کہلاتا ہے۔ یقین کرنے میں دشواری ہوتی ہے نا!!
جی ہاں پاکستان کو اللہ نے زرخیز زمین دی ہے۔ تجارت اور معیشت کے بہترین راستے دیے ہیں۔ فلک بوس پہاڑ جو معدنیات کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہیں، بہترین موسم آب و ہوا قدرتی وسائل ربّ کائنات نے پاکستان کو فراخدلی سے نوازا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انتظامی نااہلی، کرپشن اور وسائل کے غلط استعمال نے عوام کو بدحال کر رکھا ہے۔ آبادی کا نصف حصہ غذائی قلت کا شکار ہے۔ خصوصاً بچے مناسب غذا نہ ملنے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
چلیے مان لیتے ہیں موسم کے بدلتے تیور کے باعث خشک سالی اور قحط ہے۔ لیکن یہ تو ساری دنیا میں ہے، موسم اور بیماری۔ بلکہ پاکستان میں تو صورت حال قابو میں ہے۔ ہاں یہ ہے کہ کبھی گندم، کبھی چاول اور چینی اور کبھی بجلی اور پٹرول کی بڑھتی قیمتیں کچھ لوگوں کے بینک اکائونٹ کے گراف کو بلند کردیتی ہیں اور عوام غربت اور مہنگائی کی دلدل میں اُتر جاتے ہیں۔
اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آسان راستہ یہی ہے کہ قدرتی عوامل کو موردِ الزام ٹھیرا دیا جائے۔ یہ سچ نہیں بولا جاتا کہ وجہ حکومتی بدانتظامی، کرپشن اور وسائل کی لوٹ مار ہے۔ حکمرانوں کی نظر پہلے بھی اور اب بھی اپنے گھروں، دستر خوانوں اور بینک بیلنس ہی پر ہے۔ اِن سے تو جوش کی زبان میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ؎
میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے
پھر نگاہِ غور سے قانونِ قدرت دیکھیے
اپنے سامانِ تعیش سے اگر فرصت ملے
بے کسوں کا بھی کبھی طرزِ معیشت دیکھیے
آپ کو لایا ہوں ویرانوں میں عبرت کے لیے
حضرت دل دیکھیے اپنی حقیقت دیکھیے
اِس سے بڑھ کر اور عبرت کا سبق ممکن نہیں
جو نشاط زندگی تھے اُن کی تربت دیکھیے