واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ کشیدگی کی حالیہ لہر کے باعث امن مذاکرات پر سوالات اٹھنے کے بعد طالبان نے امریکی فورسز سے افغان ہلاکتوں میں کمی لانے کا وعدہ کرلیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق جنگ سے متاثرہ ملک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے لیے 29 فروری کو معاہدہ ہوا تھا تاہم حالیہ دنوں میں افغانستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے آیاجس کے بعد ایک ٹوئٹ میں امریکی نمائندہ خصوصی نے لکھا کہ اس وقت بہت سارے افغان مررہے ہیں، ہم توقع کرتے ہیں کہ دوبارہ کی جانے والی کوششوں سے اس تعداد میں نمایاں کمی آئے گی۔زلمے خلیل زاد کا مزید کہنا تھا کہ وہ اور افغانستان میں امریکی فوج کے جنرل اوسٹن ملر معاہدے کی شرائط و ضوابط پرسختی سے عمل پیرا’ ہونے کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے کئی مرتبہ طالبان سے ملاقات
کرچکے ہیں۔امریکی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ جس کا مطلب آپریشنز کی تعداد میں کمی ہے تاہم ساتھ ہی انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں یہ لکھا کہ حالیہ ہفتوں میں حملوں میں اضافہ ہوا جس نے افغان امن عمل کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں جبکہ یہ افغان عوام اور علاقائی اور عالمی اتحادیوں کے لیے خدشے کی بات ہے۔خیال رہے کہ 29 فروری کے معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ طالبان افغان سرزمین کو کسی غیر ملکی شدت پسندوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے جو 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امریکی حملے کی بنیادی وجہ تھی۔تاہم امن مذاکرات میں طالبان نے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ وہ کابل میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے خلاف تشدد ختم کردیں گے لیکن وہ امن مذاکرات میں مستقل اور جامع جنگ بندی پر تبادلہ خیال کریں گے۔اگرچہ مذاکرات کی نوعیت کے حوالے سے تنازعات ہیں تاہم گزشتہ ماہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں بہت کم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔افغانستان آپریشن کی قیادت کرنے والے نارتھ ایٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کی زلمے خلیل زاد سے بات ہوچکی ہے جبکہ اتحاد قوم کی سیکورٹی کے لیے پرعزم ہیں۔