پاکستان کی معاشی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے، انقلابی تبدیلیاں ناگزیر

131

کراچی (رپورٹ :منیر عقیل انصاری)بیڈ گورننس، کرپشن، سیکورٹی اخراجات اور ہمسایوں سے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان کی معاشی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں معیشت کی بہتری کے امکانات بہت کم ہیں۔ معاشی استحکام کے لیے لازم ہے کہ صنعت اور زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ معاشی نظام میں انقلابی تبدیلیاں کی ضرورت ہے۔پاکستان کی معاشی حالت انحطاط کی جانب گامزن ہے۔ غلط معاشی پالیسیوں اور لوٹ مار کی وجہ سے پاکستان آج تک معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی،عدالت عظمیٰ کے سینئر وکیل و ماہر ماشیات سالم سلام انصاری اورفیڈریشن آف پاکستان چیمبر زآف کامرس اینڈ انڈسٹر ی (ایف پی سی سی آئی) کے صدر میاں انجم نثار نے جسارت سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کیا۔معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ معاشی شرح نمو بہت ست روی کا شکار ہے، مہنگائی اورافراط زر میںاضافہ ہوا ہے، بیرونی مالی وسائل پر انحصار،ٹیکسوں کی وصولی میں کمی اور ملک میں سرمایہ کاری کے بجائے بیرونی قرضوں پر زیادہ انحصار کیا جارہا ہے جو معیشت کی تباہی اور نقصان کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی ترسیلات کو ملک میں سرمایہ کاری میں استعمال ہونا چاہیے لیکن اس کو جاری حسابات کے خسارہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک میں نفع اور نقصان شرکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے جس سے آگے ایک سال میں بینکوں کے کروڑوں کھاتے داروں کو 500 ارب روپے تک کا نقصان ہوسکتا ہے۔شاہد حسن صدیقی نے کہا کہ عمران خان کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور اور 2018ء کے انتخابات سے چند ہفتے پہلے جو 10 نکاتی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا اس پر عملدرآمد سے پاکستان کی معیشت میں زبردست بہتری آسکتی تھی لیکن اس پر نہ صرف یہ کہ عمل نہیں کیا گیا بلکہ اس کے عام نکات پر بھی عملا100 فیصد انحراف کیا گیا ہے۔شاہد صدیقی کے بقول توانائی کے شعبوں میں اصلاحات کرنی ہوگی، لیبرکی پیداواریت بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے، جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم اور صحت کی مد میں کم از کم 6 سے 7 فیصد مختص کرنا ہوگا اور ایک سال کے اندر آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکلنے کی حکمت عملی وضح کرنا ہوگی، قومی احتساب بیور (نیب) کی کارکردگی مایوس کن ہے اور نیب لوٹی ہوئی دولت کی واپسی اور قومی خزانے جمع کروانے والی رقوم کے غلط دعوے تسلسل سے کررہا ہے، کرپشن پر قابو پانے کے لیے نیب کی اعلیٰ انتظامیہ کا احتساب اور نیب کی تنظیم نو کی فوری ضرورت ہے۔عدالت عظمیٰکے سینئر وکیل و ماہر ماشیات سالم سلام انصاری نے کہا کہ پاکستانی معیشت کی خرابی میں بنیا دی مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے، آبادی کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ پاکستان کی معاشی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بن گیا ہے،پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ دوسرا بڑا مسئلہ پاکستان کی آمدن کا ایک بڑا حصہ قرض کی رقم پر ادا کیے جانے والے سود کی مد میںخرچ کرنا ہے، ایسی صورت میں معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے درکار رقم سے کٹوتیاں کی جاتی ہیں اور یہ صورتحال نہ صرف بیروزگاری کو جنم دے گی بلکہ غربت میں اضافے کا باعث بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر روپے کی قدر کو بہت زیادہ گرایاگیا، ڈسکاؤنٹ ریٹ اور شرحِ سود میں اضافہ کیا گیا ہے، صرف روپے کی قدر کو گرانے اور ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے سے ملک کے مجموعی قرض میں 4400 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے ۔ان کا کہنا تھاکہ بے تحاشہ قرضے اتارنے کے لیے پاکستان کو مزید قرضے لینے پڑیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا جسے معاشی اصطلاح میں ‘ڈیٹ ٹریپ’ یا قرضوں کی دلدل میں دھنس جانا کہتے ہیں، اس سے پاکستان کی معیشت پر انتہائی نقصان دہ اثرات ہوں گے۔سالم سلام انصاری نے کہا کہ بیرون ممالک سے پاکستان نے جس طرح قرضہ حاصل کیا ہے ،اس کا استعمال ایسا نہیں ہوا ہے جس طر ح ہونا چاہیے تھا،حکمرانوں نے ان قرضوں کو پاکستان کی ترقی پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی دولت میں اضافہ کیا ہے،اندرونی اور بیرونی قرضے تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں، ریاستی ادارے اربوں روپے کے خسارے پر چل رہے ہیں،امیر اور غریب کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، کئی دہائیوں سے ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا سکا ہے، جس کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ ہر سال بڑھتا ہی رہا ہے، مستحکم معیشت کی 2 بنیادیں صنعت اور زراعت کی پیداوار زوال پذیر ہے جبکہ قومی خزانے کو بے دردی کے ساتھ لوٹاجارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت کی خرابی کا تیسرا اور اہم مسئلہ پاکستان کے دفاعی اخراجات ہیں،دفاعی اخراجات اور ہمسایوں سے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان کی معاشی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے، دفاع کا معیشت سے گہرا تعلق ہوتا ہے، معیشت بہتر نہ ہو تو سوویت یونین جیسا ملک بھی بکھر سکتا ہے، اس وقت پاکستان کا شمار دنیا بھر میں اپنی مجموعی قومی آمدنی (جی ڈی پی) کا سب سے کم حصہ تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے لیکن پاکستان اپنی مجموعی قومی آمدنی (جی ڈی پی) کا جتنا تناسب دفاع پر خرچ کر رہا ہے، وہ کئی دوسرے ملکوں کے تناسب سے زیادہ ہے۔ان کے مطابق پاکستان اور بھارت ایٹمی ممالک ہیں ان میں اب جنگ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، دفاعی اخراجات اگر کم ہوں گے تو ہماری اضافی اخراجات کم ہوجائیں گے دیگر ممالک میں دفاعی اخراجات پر اتنی رقم خرچ نہیں ہوتی ہے جتنی پاکستان اپنے دفاعی اخراجات پر خرچ کررہا ہے، قوم مضبوط و توانا ہوگی تو معیشت بھی بہتر ہوگی،ملک بھی ترقی کرے گا اور دفاع بھی مضبوط ہوگا۔،اب جنگ کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے لازم ہے کہ صنعت اور زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے،معاشی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی، زرعی اصلاحات اور شہری جایداد کی حد مقرر کیے بغیر معیشت کو منصفانہ اور شراکتی نہیں بنایا جا سکتا ہے،نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے گورننس کو بہتر کیا جائے، کرپشن پر قابو پایا جائے اور گروتھ میں مڈل کلاس کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ معیشت کی ترقی کے لیے ہمیں تمام اسٹیک ہولڈر کو ملا کر ایک جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، پاکستانی معیشت کی خرابی کے سدباب کے لیے پاکستان کو ایگرو بیس اور آزاد تجارت کے لیے راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبر زآف کامرس اینڈ انڈسٹر ی (ایف پی سی سی آئی) کے صدر میاں انجم نثار نے کہا کہ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن ہم اپنی اس اہم خاصیت پر کام نہیں کر رہے،زراعت سے وابستہ صنعتوں کو فروغ کے لیے پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے، پاکستانی زراعت پر ابھی برا وقت ہے، ڈیزل کی قیمتوں، بارشوں اور ٹڈی دل کے سبب فصلوں میں کمی واقع ہوئی ہے، کپاس جس پر ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا انحصار ہے پیداوار میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ دس بارہ ملین بیل سے کم ہو کر 8 ملین بیل پر آگئی ہے جو ہماری برآمدات کو بھی متاثر کرے گی۔ زراعت سے منسلک بیوریجز، فوڈ، ڈیری فارمنگ انڈسٹری کو فروغ دینے کی پالیسی تیار کرنی ہوگی اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، انڈسٹری کو فروغ ملے گا، حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، کاٹن کی صنعت دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے گی۔انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں کمی اور پھر منافع بخش پروگرامز اور سرمایہ کاری کے فروغ کے ذریعے پاکستان کی معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔ان کا کہنا تھاکہ ہمیں پاکستان میں غربت کے خاتمے پر توجہ دینی چاہیے،غربت کے مسئلہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، کاروبار کے فروغ سے معاشرے میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چھوٹے کاروباروں کیلیے رقم مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ باقیوں کیلیے بھی وسیلہ روزگار بنیں۔