موجودہ علاقائی اور عالمی حالات میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل لیے سب سے زیادہ ووٹ لے کر رکن منتخب ہونا ایک تازہ ہوا کا خوش گوار جھونکا ہے۔ بری خبروں کا ڈھول پیٹنا اور ماتم کرنا ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے مگر اچھی اور مثبت خبروں کا بے تاثر گزر جانا بھی معمول بن گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملکی حالات اور دگرگوں معیشت نے معاشرے کی بہت سی حسیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کے باوجو د اچھی خبروں اور مثبت باتوں پر خوشی کا اظہار ایک مثبت نفسیاتی رویہ ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے کی نمائندگی کے لیے پاکستان کا سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہونا ایسی ہی خبر ہے کہ جس پر ڈپریشن کی ماری قوم کو تھوڑی دیر کے لیے خوش ہونا چاہیے۔ اس سے آٹا اور دالیں تو سستی نہیں ہوں گی مگر کچھ معاملات کا تعلق قومی وقار اور عزت وانا سے ہوتا ہے۔ ایسے جذبوں اور معاملات کو ترازو پر تولا نہیں جاتا۔ پاکستان نے کل 193ووٹوں میں سے 169ووٹ حاصل کیے جبکہ ازبکستان نے دوسرے نمبر پر 164ووٹ حاصل کیے۔ نیپال نے 150چین نے 139ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ سعودی عرب نے صرف نوے ووٹ حاصل کیے اور کامیاب نہ ہوسکا۔ حقوق انسانی کونسل میں اس کامیابی پر وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے نیویارک مشن کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا اس انتخاب سے پاکستان کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کا ایک منفرد موقع ملے گا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے قواعد وضوابط کے مطابق کونسل کے ارکان کی تعداد 47 ہے۔ قواعد کے مطابق کوئی ملک مسلسل تیسری بار الیکشن نہیں لڑ سکتا مگر ایک بار کے وقفے کے بعد وہ ملک دوبارہ الیکشن لڑنے کا اہل بن جاتا ہے۔
پاکستان ماضی میں پانچ بار انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب ہو چکا ہے اور اس وقت بھی کونسل کا رکن ہے۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کے لیے پاکستان کا سب سے زیادہ ووٹ لے کر منتخب ہونا کئی حوالوں سے اہم ہے۔ اس انتخاب پر شکن آلود جبینوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تکلیف کہاں کہاں محسوس کی گئی ہے؟۔ درد کی ٹیسیں کہاں سے اُٹھیں؟۔ اس کیفیت ہی نے بتادیا مسئلہ اس قدر غیر اہم بھی نہیں کہ جتنا بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف میں وزن پیدا ہونے کے خوف سے پاکستان کے انتخاب میں رکاوٹیں ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کے باوجود پاکستان منتخب ہوگیا اور یوں بھارت کو سُبکی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بھارت پاکستان کو اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ اور دہشت گردی کا سرپرست ملک ثابت کرنے کے لیے بے پناہ وسائل خرچ کرتا آیا ہے۔ ان وسائل کی وجہ ہی سے ایف اے ٹی ایف کی تلوار پاکستان کے اوپر لٹک رہی ہے۔ امریکا میں پاکستان کی شدید مخالف اور ناقد لابی میں نمایاں شخص حسین حقانی کی مایوسی تو اس قدر دیدنی تھی کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کو ایک بے کار ادارہ قرار دیا۔ گویا کہ اگر بھارت اس کونسل کا رکن بنتا تو نہ صرف یہ کہ ادارہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا بلکہ اس انتخاب کو پاکستان کی پالیسیوں کی شکست اور ناکامی کہہ کر ڈھول پیٹا جاتا۔ اب جبکہ پاکستان سب سے زیادہ ووٹ لے کر اس فورم کا رکن بنا ہے تو حسین حقانی کے نذدیک اس کی اہمیت ہی نہیں۔ حقیقت میں یہ ایک اہم انتخاب ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل ماضی میں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال کے حوالے سے اپنی مفصل اور چشم کشار رپورٹیں جاری کر چکی ہے۔ ان رپورٹوں نے بھارت کا انسانی حقوق کے حوالے سے داغدار دامن اور چہرہ پوری دنیا کے سامنے عیاں کرکے رکھ چھوڑا تھا اور بھارت نے ان رپورٹوں پر مذہبی تعصب اور جانبداری کا الزام لگایا تھا۔ اب بھارت کو پھر یہ خدشہ ہے کہ پاکستان اس فورم میں اپنی نمائندگی کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بے نقاب کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ اسی لیے بھارت اور اس کے ہم نوا اس انتخاب کا ڈائون پلے کرنے میں مصروف ہیں۔ سعودی عرب جیسے باوسیلہ ملکوں کا اس انتخاب میں ہار جانا اور چین جیسی عالمی طاقت کا کم ووٹ لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ادارہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ عالمی فورم پر پاکستان کی صلاحیت اور کردار پر عالمی برادری کے اعتماد کا اظہاربھی ہے۔ حکومت پاکستان کو اس موقع کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ اس فورم پر زور دینا چاہیے کہ یہ اپنا فیکٹ فائنڈنگ مشن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی کوشش کرے تاکہ انسانی حقوق کی اس قتل گاہ اور برمودہ تکون کی کچھ حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہو سکے۔