پی ڈی ایم، کراچی کا جلسہ، اختلافات کے خدشات

355

یہ محاورہ تو عام ہے کہ ’’سیاست میں سب جائز ہے لیکن اس امر کا پہلی بار اظہار دیکھنے میں آیا کہ جس شہر میں سیاسی جماعتیں بری طرح شکست کھا چکی ہوں بلکہ جس شہر نے اپنی بڑائی، قابلیت، ثقافت اور شناخت کی وجہ سے ہمیشہ ہی ایسی جماعتوں سے منہ موڑے رکھا یا جنہیں کبھی بھی اہمیت یا دیگر الفاظ میم لفٹ نہیں کرائی ان پارٹیوں نے یکجا ہوکر اسی شہر سے ووٹ کی بھیک کی امید لے کر اپنا سیاسی دنگل سجالیا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے گزشتہ اتوار کو کراچی میں جلسہ کرکے کچھ اسی طرح کا اظہار کیا۔ اپوزیشن کی جماعتوں میں اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی بات کی جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اسے کراچی سے بھٹو کے دور میں بھی توقع کے مطابق کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی جبکہ 2018 کے عام انتخابات میں اس کے ہاتھ سے لیاری بھی نکل گیا تھا۔ جو کراچی میں اس کا گڑھ کہلاتا تھا۔ مسلم لیگ نواز کے اپنے رہنما اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو کراچی کے لوگوں نے گزشتہ عام انتخابات میں بری طرح مسترد کرکے اسے آئینہ دکھا دیا تھا۔ جے یو آئی ف کی سیاست فیل ہے اس کی مذہبی لبادے میں لپٹی سیاست کو ڈی آئی خان کے لوگ بھی مسترد کرچکے ہیں جبکہ اس کے رہنما و عالم مولانا فضل الرحمن کو بھی ان کے اپنے لوگوں نے گزشتہ عام انتخابات میں ووٹ نہ دے کر ان سے اپنی ناپسندیدگی کا کھلا اظہار کردیا تھا۔ اصولاً اور اخلاقاً تو انتخابی سیاست سے مستعفی ہو جانا چاہیے جنہیں ان کے اپنے آبائی حلقوں کے لوگ ٹھوکر مارکر مسترد کرچکے ہوں۔ مگر کراچی کی بدقسمتی ہے کہ یہ اپنی بڑائی اور خوش اخلاقی سے مجبور ہوکر ان کی بھی مہمان نوازی کرلیا کرتا ہے جنہوں نے کبھی بھی ان حقوق کی بات نہیں کی۔ میں اس تحریر میں اس متعصب لیڈر کا ذکر تک نہیں کرنا چاہتا جس نے قائد اعظم محمد علی جناح کے شہر میں ان کے مزار کے قریب کھڑے ہوکر پاکستان کی قومی زبان کا مذاق اڑایا بلکہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان ماننے سے انکار کردیا۔ مگر یہ بات کہنے کے لیے بھی اردو زبان کا سہارا لیا۔ شاید یہ پشتون لیڈر پاکستان کے قیام کی تاریخ ہی سے نابلد ہے۔ پختون خوا کے خوامخواہ لیڈر کی یاد دھانی کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ مارچ 1948ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ: ’’میں آج آپ پر یہ واضح کردوں کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، اگر آپ کو اس بارے میں کوئی گمراہ کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے‘‘۔
پی ڈی ایم کے اس جلسے کے آغاز سے قبل مزار قائد پر جس طرح سیاسی نعرے لگا کر مزار کا تقدس پامال کیا گیا ہے اس پر بھی دکھ ہے، اصولی طور پر تو مزار قائد کے احترام کو خاطر ملحوظ نہ رکھنے پر ان پنجاب کے مہمانوں کے میزبانوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔ نجانے یہ کس طرح کی تربیت کے سیاست دان تھے جو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگا کر ملک بنانے والے عظیم قائد محمد علی جناح کے مزار کی توہین کرتے رہے؟ مجھے یقین کی حد تک شک ہے کہ مزار پر نعرے لگائے والوں نے بانی پاکستان کی روح کو ایصال ثواب پہچانے کے لیے فاتحہ خوانی نہیں کی ہوگی۔ پی ڈی ایم کا یہ شو مجموعی طور پر صرف بے ہنگم اور بے نظم و ضبط کی عکاسی کررہا تھا۔ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے بہت سے کارکن اپنے رہنماؤں کی تقاریر سننے بغیر گھروں کو لوٹ گئے۔ یہ جلسہ دراصل ملک کی ان 11 سیاسی جماعتوں کا پاور شو تھا جنہیں 2018 کے انتخابات میں کراچی کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اور متعدد کراچی کے لوگ ان جماعتوں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے شاید یہی وجہ ہے کہ اس اجتماع میں نظر آنے والے لوگوں اور رہنما بھی کی اکثریت کا تعلق شہر سے نہیں تھا۔ مزار قائد کے جناح گراونڈ میں ہونے والے پی ڈی ایم کا یہ جلسہ اس بات کا اظہار تھا کہ جلسے میں میزبان پاکستان پیپلزپارٹی پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کی حاضری بھی غیر معمولی کم تھی اس کی وجہ پیپلز پارٹی ہی بیان کرسکتے ہیں۔ اس جلسے میں باشعور لوگوں کے بجائے کرائے پر لائے گئے افراد کی تعداد واضح تھی۔ ایک ٹی وی چینل نے اپنی لائیو نشریات میں جلسے میں شریک افراد سے جب پی ڈی ایم کے بارے میں سوال کیا تو بیش تر اس کا مطلب اور بہت سے بانی کا نام تک نہیں بتاسکے۔ پی ڈی ایم کے کراچی کے جلسے میں میزبان پیپلز پارٹی کے پرچم اُٹھائے وہ لگ زیادہ تھے جو اندرون سندھ سے لائے گئے تھے آزادانہ تجزیے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے اس اجتماع سے کراچی کے باشعور اور سیاسی ذہن رکھنے والے افراد لاتعلق رہے۔ جبکہ اس شو اس بات کا بھی اظہار کردیا کہ کراچی ہی کیا پورے صوبے کے لوگوں کو پی ڈی ایم کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، یہ اور بات ہے کہ جلسے میں تقریباً 35 ہزار افراد کی موجودگی کا منتظمین کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا رہا۔
آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہی بات واضح ہوگی کہ یہ جلسہ اپنے نتائج کے حوالے سے 11 سیاسی جماعتوں کی غیر دانش مندانہ حکمت عملی کا ثبوت تھا کیونکہ سیاسی طور پر اس شو سے ان جماعتوں کو کچھ حاصل ہونے کے بجائے ان کا مذاق اڑا ہے جبکہ مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف مقدمات کے اندراج سے پی ڈی ایم کے اہم ترین اتحادیوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔