ہمارے متضاد رویے

315

ہم رویوں کے اعتبار سے ایک غیرمتوازن قوم ہیں، کبھی ایک انتہا پر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری انتہا پر۔ حال ہی میں موٹروے کا سانحہ رونما ہوا تو وفاقی کابینہ کے وزرا کے متضاد رویے سامنے آئے، بعض نے کہا: ’’ایسے مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینی چاہیے، جبکہ بعض نے اس کی مخالفت کی‘‘۔ اُن کا استدلال ہے کہ اس سے حقوقِ انسانی کی نفی ہوتی ہے۔ اسی طرح متعدد کالم لکھے گئے، معاشرے کے اخلاقی زوال کا مرثیہ پڑھا گیا، ٹیلی ویژن پر پروگرام ہوئے، مگر ہمارا وتیرہ یہ ہے کہ ایک سانحے کا احساس کچھ دنوں تک رہتا ہے اور کوئی دوسرا سانحہ رونما ہونے پر اسے بھلادیا جاتا ہے، پس المیہ یہ ہے کہ ہمارا ردِّ عمل عارضی ہوتا ہے، رویے دیرپا نہیں ہوتا، جلد ہی سانحات ہمارے ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں۔
اسلام میں جرائم کی سزائوں کی دواقسام ہیں: ایک حدود اور دوسری تعزیرات۔ حدود، حَد کی جمع ہے، لغت میں حَد کے معنی ہیں: ’’منع کرنا، روکنا، باز رکھنا، دو چیزوں کے درمیان حائل یا رکاوٹ‘‘، عربی میں دربان کو ’’حدّاد‘‘ کہتے ہیں کہ وہ ایسے شخص کو، جو اُس مقام میں داخل ہونے کا مُجاز نہیں ہے، روک لیتا ہے۔ شریعت نے جن جرائم کی سزائیں متعین کردی ہیں، انہیں ’’حد‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں: قتلِ عمد، چوری، ڈاکا، زنا، تہمتِ زنا (قذف)، شراب نوشی اور اِرتداد۔ ڈاکا زنی، قتل وغارت اور دہشت گردی کو بحیثیتِ مجموعی ’’حِرابہ‘‘ اور ’’فساد فی الارض‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، بعض صورتوں میں اس میں زنا بالجبر کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ قتلِ عمد کی سزا قصاص، چوری کی سزاہاتھ کاٹنا، غیر شادی شدہ زانی، تہمتِ زنا اور شراب نوشی کی سزا کوڑے لگانا اور اِرتداد کی سزا موت ہے۔ حد کی حکمت یہی ہے کہ مجرم سزا کے خوف سے ارتکابِ جرم سے باز رہے اور دوسرے بھی جب مجرم کے عبرتناک انجام کو دیکھتے ہیں تو ارتکابِ جرم سے باز رہتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر جرائم کی سزائوں کا تعیُّن شریعت نے نہیں کیا، یہ حاکمِ وقت یا نظمِ اجتماعی کی صوابدید پر ہے کہ وہ حکمت اور مصلحتِ عامّہ کے تحت ان کی سزائیں مقرر کرے۔ اگرکسی زمانے میں کسی خاص جرم کی شرح بڑھ جائے، لوگ جرائم کے ارتکاب پر جری ہوجائیں، قانون کا خوف دل سے نکل جائے تو حاکمِ وقت زیادہ سزا بھی مقرر کرسکتا ہے اور اگر مجموعی حیثیت سے معاشرہ بہتر حالت میں ہے، جرائم خال خال ہیں تو ان کی سزا کم بھی رکھی جاسکتی ہے، ایسی سزائوں کو تعزیر کہتے ہیں، عربی لغت میں تعزیر کے معنی ہیں: ملامت کرنا، ادب سکھانا، سخت مارنا اور اس کے ایک معنی تعظیم وتوقیر کے بھی ہیں۔
جب ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے قانونِ قصاص اور شرعی حدود کو نافذ کرو تو لبرل عناصر اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں، شرعی سزائوں کو وحشیانہ اور حرمتِ انسانیت کے منافی قرار دیتے ہیں، اچانک ان کے دلوں میں مجرموں کے لیے رحم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ ضررِ کثیر سے بچنے کے لیے ضررِ قلیل کو ترجیح دیتا ہے، انسان کا جب کوئی عضو ناکارہ ہوجائے، اس میں زہر سرایت کرنے لگے، جسم کا کوئی حصہ بے جان ہوجائے اور اس نقص کے باقی وجود میں سرایت ہونے کا ظنِّ غالب ہو تو بقیہ جسم کو بچانے کے لیے اُسے کاٹ کر بدن سے جدا کردیا جاتا ہے، شوگر کے سبب Gangrene کا مرض لاحق ہونے پر پائوں یا ٹانگیں کاٹنے کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں، ناقص گردہ نکال کر صالح گردہ ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے، جگر کی پیوند کاری ہوتی ہے، بعض اوقات اصل اعضاء ناکارہ ہونے کے باعث انہیں کاٹ کر مصنوعی اعضاء لگادیے جاتے ہیں، یہ سارا عمل باقی بدن کی سلامتی کے لیے ہوتا ہے، اسی لیے انسان کی اجتماعی دانش نے اسے قبول کرلیا ہے اور متاثرہ فرد بھی بخوشی اس کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
اسی طرح پورا معاشرہ بھی جسدِ واحد کی طرح ہوتا ہے، معاشرے کا ہر فرد ایک عُضو کی مانند ہے، پس جب کوئی عضو جرائم، فساد اور تخریب کے ذریعے پورے معاشرے کے امن، سلامتی اور سا لمیت کے لیے خطرہ بن جائے، لوگوں کی جان و مال اور آبرو محفوظ نہ رہے، اس کی وجہ سے کوئی عورت یا بچہ ہمیشہ اپنے آپ کو بے توقیر محسوس کرے اور معاشرے میں ناقدری کا ہدف بن جائے، تو لازم ہے کہ ایسے فرد کو نابود کرکے معاشرے کو اُس کے شر سے محفوظ کرلیا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسے جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے سوبار سوچے کہ وہ بھی ایسے انجام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ایسے مفسد عناصر سے ہمدردی ایسی ہی ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی کے پائوں یا ٹانگ میں زہر سرایت کر گیا ہے تو اُسے اسی حالت میں رہنے دیا جائے تاکہ یہ زہر بتدریج پورے بدن کو چاٹ جائے اور اس کی صلاحیتِ حیات کو سلب کرلے۔
اسلام میں عبرت دلانے کے لیے بعض سزائیں برسرِ عام دینے کا حکم بھی موجود ہے، چنانچہ حدِ زنا کے بارے میں فرمایا: ’’(غیر شادی شدہ) زانی مرد اور زانیہ عورت میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگائو اور اللہ کے حکم کو نافذ کرنے میں تم ان دونوں پر کوئی ترس نہ کھائو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور اُن کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے، (النور: 2)‘‘۔ حدِّ سرقہ کے بارے میں فرمایا: ’’چوری کرنے والے مرد اور عورت میں سے ہر ایک کا (دایاں) ہاتھ کاٹ دو، یہ اُن کے کیے کا بدلہ (اور) اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور اللہ بہت غالب نہایت حکمت والا ہے، (المائدہ: 38)‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ عبرت مجرم کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی ہے۔
بعض اوقات کئی جرائم ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں، مثلاً: ڈاکا زنی، دہشت گردی، زنا بالجبر اور خوف وہراس پھیلانا وغیرہ، قرآنِ کریم نے جرائم کے اس مجموعے کے لیے سب سے سنگین سزا مقرر کی ہے، فرمایا: ’’اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، ان کی یہی سزا ہے کہ انہیں چُن چُن کر قتل کیا جائے یا اُن کو سولی پر لٹکایا جائے یا مخالف سَمت سے اُن کے ہاتھ اور پائوں کاٹے جائیں یا اُنہیں (قید کرکے) زمین سے نکال دیا جائے، یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑا عذاب ہے، ماسوا اُن لوگوں کے جنہوں نے تمہارے قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلی (اور ہتھیار ڈال دیے)، پس جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے، (المائدہ: 33-34)‘‘۔ یعنی قتل کی صورت میں قصاص یا عبرت کے طور پرسولی پر لٹکانا، چوری اور ڈاکا زنی کی صورت میں مخالف سمت سے ہاتھ اور پائوں کاٹنا، دہشت پھیلانے کی صورت میں قید کر کے معاشرے کو اس کے شر سے محفوظ کرنا شامل ہیں، بعض مفسرین نے فرمایا: اگر کسی نے ایک سے زائد جرائم یا ان سب جرائم کا ارتکاب کیا ہے تو بالترتیب ایک سے زائد سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔
جرائم کی تفتیش کے حوالے سے ہمارے تفتیشی ادارے جدید وسائل اور مہارت سے محروم ہیں، برطانوی استعمار کے دور سے صرف ’’مجرم پر جبر کر کے اور اذیت دے کر اعترافِ جرم کرانے‘‘ کا حربہ استعمال ہورہا ہے۔ کراچی کے اخبارات کو کھنگال کر دیکھیں، ایک ایک قاتل نے پولیس کی اذیت سے بچنے کے لیے سو سو قتلِ ناحق کا اعتراف کیا، مگر عدالت کے سامنے اعترافِ جرم سے منحرف ہوگئے اور پھر رہا بھی ہوگئے۔ ملک میں تسلسل کے ساتھ کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کر کے قتل کرنے کے واقعات رونما ہورہے ہیں، میڈیا اور سیاست دانوں کے واویلا مچانے کے باوجود یہ سلسلہ رک نہیں پارہا، اس کا ایک ہی حل ہے کہ جرائم کی تفتیش قطعی ثبوت وشواہد کے ساتھ کرکے مجرم کو عبرت ناک انجام سے دوچار کیا جائے اور یہی چیز ہمارے ہاں مفقود ہے۔
بلاشبہ فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے تعلیم اور اخلاقی تربیت بھی بے حد ضروری ہے، صالح ذہنوں پر یقینا اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن الیکٹرونک میڈیاکی بہتات اور سوشل میڈیا کی مختلف اقسام نے اخلاقی تربیت کے مواقع کو شدید متاثر کیا ہے۔ بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے ناپختہ ذہن جب ہیجان انگیز مناظر کو دیکھتے ہیں، تو اخلاقیات پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اب بظاہر ان چیزوں کو کنٹرول کرنا حکومتوں کے لیے بھی مشکل ہورہا ہے۔ مزید یہ کہ ہماری قیادت کا اپنا اخلاقی معیار بھی تنزّل سے دوچار ہے، پست سے پست ہوتا جارہا ہے، سب نے ایک دوسرے کی تذلیل وتحقیر کے لیے سوشل میڈیا کے جتھے پال رکھے ہیں، دوسروں کی عزت تار تار کر کے قیادت راحت محسوس کرتی ہے اور پھر اُسے بھی اُسی طرح کا جواب ملتا ہے، اختلاف کے آداب معدوم ہوچکے ہیں، عزت وذلت کے معنی بدل چکے ہیں، ایسے میں اخلاقی تربیت کیسے ہوگی۔ وہ قومی مناصب جو سب کے لیے قابلِ احترام ہونے چاہییں، اس اعزاز سے محروم ہوچکے ہیں، اس میں صاحبانِ مناصب کے اپنے رویوں کا بھی کافی حد تک دخل ہے اور ایسی خصلتیں جو فطرتِ ثانیہ بن چکی ہوں، اُن کا بدلنا آسان نہیں ہے، رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے:
’’جب تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو تصدیق کرلو (کہ ایسا ہوسکتا ہے)، لیکن جب تم سنو کہ کسی شخص نے اپنی جبلّت کو ترک کردیا ہے تو تصدیق نہ کرو، وہ پلٹ کر اُسی کی طرف آئے گا، (مسند احمد)‘‘۔
باقی صفحہ 7 کالم 1
مفتی منیب الرحمن
یہ رسول اللہ ؐ کا معجزہ تھا کہ آپ نے انسانی فطرت کی اُس استعداد کو جو باطل کے لیے استعمال ہورہی تھی، تزکیہ اور تربیت کے ذریعے اس کا رخ حق کی طرف پھیر دیا، آپؐنے فرمایا: ’’لوگوں کی مثال کانوںکی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، سو ان میں سے جو زمانہ جاہلیت میں کسی جوہرِ قابل کا حامل تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد اس کی وہ فضیلت قائم رہی، (مسلم)‘‘۔ علامہ علی القاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: انسانیت کے حوالے سے معدِن سے مراد انسانی جبلّتوں کا جوہر اور خیر کی وہ فطری استعداد ہے جسے مسلسل تربیت و ریاضت سے نکھارا جاسکتا ہے، جیسے سونا، چاندی، ہیرے اور جواہرات زمین میں چھپے ہوتے ہیں، پھر انہیں نکالاجاتا ہے، ان کی تراش خراش کر کے اندر سے کھوٹ کو نکالا جاتا ہے، پالش کر کے چمکایا جاتا ہے، سو وہی پتھر جو پاؤں کی ٹھوکر میںتھا، بادشاہوں کے تاج میں سجتا ہے اور گلے کا ہار بنتا ہے۔