عمران خان کا دکھ

312

وزیر اعظم عمران خان نے میاں نواز شریف کی تقریر پر انتہائی دکھ کا اظہار کیا ہے۔ انہیں اس بات کا شدید افسوس ہے کہ میاں نواز شریف نے فوج کو رسوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کے اخبارات ان کی تقریر پر شادیانے بجا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ بھارتی میڈیا میاں نواز شریف کی تعریفیں کر رہا ہے۔ خان صاحب کسی زمانے میں بھارتی میڈیا آپ کی بھی بہت تعریفیں کیا کرتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب بھارت کے ایک معروف اخبار میں پاناما لیکس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاناما لیکس کی آڑ میں نواز شریف کو ایوان اقتدار ہی سے نہیں سیاست سے بھی نکال دیا جائے گا۔ اس وقت آپ لو گ کیوں خاموش رہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا فرمان ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف ایک کتاب بھی لکھی گئی تھی۔ جس میں بڑے بڑے انکشافات کیے گئے تھے ان دونوں کی ذات کے حوالے سے کتاب تو آپ کے حوالے سے بھی آئی تھی۔ جس میں آپ کا ذکر خیر بڑی تفصیل سے کیا گیا تھا۔ یہاں اس کا تذکرہ کر کے ہم اپنے کالم کو متنازع بنانا نہیں چاہتے۔ خان صاحب نے عدلیہ اور نیب کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ لوگ انصاف کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہی بات اپوزیشن کہے تو اداروں کو رسوا کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ مگر وزیر اعظم عمران خان پر اداروں کو متنازع بنانے کا الزام لگانے کی کوئی بھی جرأت نہیں کر سکتا۔ حالانکہ موصوف نے واضح لفظوں میں عدلیہ اور نیب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انصاف فراہم کرنے میں ان کے تاخیری حربوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ کیا یہ اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ جب الیکشن میں فلاں فلاں امیدواروں کو ناکامی دکھائی دینے لگی انہوں نے آرمی چیف سے گڑگڑا کر فریاد کی تھی کہ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو وہ تباہ ہو جائیں گے۔ ان کا سیاسی مستقبل برباد ہو جائے گا۔ خدارا ہماری مدد فرمائیں۔ کیا یہ آرمی چیف کو سیاست میں ملوث کرنے کی سعی نامشکور نہیں۔ اگر یہی بات نواز شریف کہیں تو ان پر ملک کے خلاف سازش کرنے اور اداروں کو متنازع بنانے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کا یہ بیان قابل توجہ ہے کہ اپوزیشن ٹی وی چینل پر آکر بڑی بے حیائی اور بے شرمی سے جھوٹ بولتی ہے۔ گستاخی معاف خان صاحب آپ اور آپ کے ترجمان بھی تو یہی کچھ کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے بے ہنگم اضافے پر آپ کی کابینہ کے بہت سے رکن پریشان ہیں۔ مگر آپ کو عوام کے مسائل کی پروا ہی نہیں۔ گویا آپ کو مہنگائی بے روزگاری اور عوام کی بے گھری سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ آپ تو وزیر اعظم بننا چاہتے تھے سو آپ کی یہ خواہش پوری ہو چکی ہے۔ مگر آپ کی اس خواہش بے لگام سے قوم پر کیا گزر رہی ہے کیا افتاد آن پڑی ہے آپ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ کوئی لینا دینا نہیں۔
بھٹو مرحوم سے لاکھ اختلاف کیا جائے مگر یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ وہ عوام کے جذبات اور ان کے خیالات سے آگاہی کو اپنی ذمے داری سمجھتے تھے۔ ملک کے چھوٹے سے چھوٹے شہر سے بھی نکلنے والے اخبارات میں اپنی حکومت اور اپنی کارکردگی کے بارے میں لکھے جانے والے کالم اور مضامین پڑھنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔ انہوں نے یہ حکم صادر کیا ہوا تھا کہ ان کی حکومت اور ان کی کارکردگی کے بارے میں کسی بھی اخبار میں کوئی کالم یا مضمون شائع ہو اس کا تراشا ان کی میز پر ہونا چاہیے۔ مگر عمران خان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی حکومت کے بارے میں عوام کیا کہتے ہیں۔ ان کی کارکردگی کے بارے میں اخبارات کیا لکھتے ہیں۔ وہ اس معاملے پر غور کرنا غالباً اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم اپنے ترجمانوں کے بیانات پڑھنے اور سننے کے بجائے عوام کی رائے جان لیں اور اخبارات کے تبصرے پڑھنے کی کوشش کریں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ وہ عوام کی مشکلات اور ان کے مسائل پر توجہ دے سکتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا ارشادِ گرامی ہے کہ ان کی حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ سو ان کی حکومت کو فوج سے کوئی پریشانی نہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ خان صاحب آپ کا فرمان بجا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب آپ اور آپ کے ترجمان ایک پیج پر نہیں تو فوج آپ کے پیج پر کیسے آسکتی ہے اور سیاست میں کیسے ملوث ہو سکتی ہے۔ آپ کے ترجمان چوہان صاحب کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے جلسے میں ایک آنچ کی نہیں ڈھیروں آنچ کی کسر رہ گئی ہے۔ چاٹ بارہ مصالحوں کی ہوتی ہے۔ مگر اپوزیشن نے گیارہ مصالحوں کی چاٹ پیش کی ہے۔ چوہان جی آپ نے درست فرمایا مگر خان صاحب کا فرمان اس کے برعکس ہے انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو بارہواں کھلاڑی قرار دے کر اپوزیشن کے جلسے کو بارہ مصالحے کی چاٹ تسلیم کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں خان صاحب نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ ٹیم گیارہ کی ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ترجمان اور حکومت ایک پیج پر نہیں تو فوج کیسے اپنا پیج پھاڑ سکتی ہے۔ ویسے قابل غور شیخ رشید کا یہ بیان بھی ہے کہ عمران خان استعفا دے دے گا مگر NRO نہیں دے گا۔ گویا اندرون خانہ کھچڑی پک رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پہلے ن لیگ پر پابندی لگتی ہے یا وزیر اعظم عمران خان استعفا دیتے ہیں۔